قرآنِ مجید انسان کو بار بار یہ احساس دلاتا ہے کہ عبادت کا حق دار صرف وہی ہو سکتا ہے جو پیدا کرے، پالے، نفع و نقصان کا مالک ہو، اور ہر چیز پر اختیار رکھتا ہو۔
اور قرآن واضح کرتا ہے کہ یہ صفات صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں، اس لیے عبادت بھی صرف اسی کی ہونی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعْبُدُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ
اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، جس نے تمہیں پیدا کیا۔
(البقرہ 21)
یعنی خالق وہ ہے، عبادت اسی کی ہونی چاہیے۔
اسی طرح اللہ ہی ہے جو زندہ کرتا ہے، مارتا ہے، روزی دیتا ہے، اور مشکل وقت میں سن کر مدد کرتا ہے
جب ہر چیز کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے، تو عبادت کسی اور کے لیے کیوں؟
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ
اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے اور پھر زندہ کرے گا۔
(الروم 40)
قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ جنہیں اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کچھ اختیار نہیں رکھتے، نہ کسی کی بات سن سکتے ہیں، نہ نفع دے سکتے ہیں، نہ نقصان۔
وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ، إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا۟ دُعَآءَكُمْ، وَلَوْ سَمِعُوا۟ مَا ٱسْتَجَابُوا۟ لَكُمْ
جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ کھجور کی جھلی کے بھی مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو، وہ تمہاری دعا سن نہیں سکتے، اور اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔
(فاطر 13–14)
یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے ہمیشہ اللہ کی خالص عبادت کی اور دوسروں کو اسی کی دعوت دی
وَمَآ أُمِرُوا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ
اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو صرف اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔
(البینہ 5)
اور غیراللہ کو عبادت میں شریک کرنا سب سے بڑا ظلم یعنی شرک ہے۔
فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًۭا
اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔
(الجن 18)