طاغوت کا مفہوم قرآن کی روشنی میں گہرے عقیدے اور فکری رہنمائی پر مبنی ہے۔ طاغوت عربی لفظ طغی سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے حد سے تجاوز کرنا۔ قرآن مجید میں طاغوت ان تمام افراد، اداروں، یا قوتوں کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی حاکمیت، ربوبیت، یا عبادت کے حق میں مداخلت کریں، یا خود کو اُس کے برابر رکھنے کی کوشش کریں۔
وَٱلَّذِينَ ٱجْتَنَبُوا۟ ٱلطَّـٰغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ لَهُمُ ٱلْبُشْرَىٰ
اور جنہوں نے طاغوت کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا، اُن کے لیے خوشخبری ہے۔
(الزمر 17)
قرآن میں طاغوت ایک جامع اصطلاح ہے جس کا اطلاق ان تمام چیزوں پر ہوتا ہے جو انسان کو اللہ کی بندگی سے ہٹا کر کسی اور کی اطاعت یا عبادت میں ڈال دیں۔ اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔
جھوٹے معبود جیسے بُت یا کسی غیر اللہ کی عبادت۔
جابر حکمران جو اللہ کے قانون کو رد کر کے اپنے قانون کو نافذ کریں۔
گمراہ پیشوا جو باطل نظریات اور فاسد عقائد کو فروغ دیں۔
شیطان جو انسان کو اللہ سے دور کرتا ہے۔
نفس پرستی جب انسان اپنی خواہشات کو اللہ کے حکم پر ترجیح دے۔
طاغوت کی مخالفت دراصل توحید کا جزو ہے، کیونکہ اللہ کو الٰہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کے سوا کسی اور کی بندگی، اطاعت، یا قانونی برتری کو تسلیم نہ کیا جائے۔ انبیاء علیہم السلام نے ہر دور میں طاغوت کے خلاف بغاوت کی، چاہے وہ فرعون ہو، نمرود ہو یا سردارانِ قریش۔
طاغوت ہر وہ قوت ہے جو اللہ کی بندگی سے روکے، اور انسان کو گمراہی، شرک یا ظلم کی طرف لے جائے۔ ایمان اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب انسان ان تمام باطل قوتوں کا انکار کر کے صرف اللہ کی بندگی، اطاعت، اور حاکمیت کو تسلیم کرے۔ لہٰذا، فمن يكفر بالطاغوت ويؤمن بالله کا مطلب یہی ہے کہ انسان طاغوت کی تمام شکلوں سے اعلانِ براءت کرے اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائے۔ یہی اصل توحید اور نجات کا راستہ ہے۔