قرآنِ مجید نے صدقات (زکوٰۃ) کے مستحقین کی تفصیل نہایت وضاحت سے بیان فرمائی ہے، تاکہ کوئی مالِ زکوٰۃ کو اپنی مرضی سے نہ بانٹے بلکہ اللہ کی مقرر کردہ تقسیم کے مطابق صرف کرے۔ زکوٰۃ، اسلام کا مالی رکن ہے، اور اس کی درست تقسیم سے معاشرے میں عدل، توازن اور حاجت مندوں کی مدد ممکن ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّمَا ٱلصَّدَقَـٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْعَـٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَٱلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَٱلْغَـٰرِمِينَ وَفِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ
صدقات تو صرف فقیروں، مسکینوں، ان کے لیے جو صدقات پر کام کرنے والے ہیں، جن کی دلجوئی مقصود ہے، گردنیں چھڑانے میں، قرض داروں، اللہ کے راستے میں اور مسافروں کے لیے ہیں۔
(التوبہ 60)
اس آیت کی روشنی میں آٹھ مستحقین یہ ہیں
فقرا وہ لوگ جن کے پاس کچھ بھی نہ ہو یا بہت کم ہو۔
مساکین وہ جنہیں ضرورت ہے مگر ظاہر میں مستغنی لگتے ہیں۔
عاملین علیھا زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے والے کارکن۔
مؤلفۃ القلوب وہ لوگ جنہوں نے تازہ تازہ ایمان قبول کیا ہے۔
فی الرقاب غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے۔
غارمین وہ مقروض جنہوں نے قرض لیا ہو۔
فی سبیل اللہ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے والے، جیسے مجاہدین یا دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ۔
ابن السبیل مسافر جو سفر میں مال سے محروم ہو جائے۔
نبی کریم ﷺ نے بھی ان ہی آٹھ مدات میں زکوٰۃ کو صرف فرمایا، اور کسی نویں مصرف کی اجازت نہ دی۔ پس، زکوٰۃ کی ادائیگی صرف انہی مصارف میں ہونی چاہیے، ورنہ یہ عبادت ضائع ہو سکتی ہے یا خیانت شمار ہوگی۔