صحابہ کرام کو “أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا” کیوں کہا گیا؟

قرآنِ مجید نے صحابہ کرامؓ کے ایمان، اخلاص، اور قربانی کو سراہتے ہوئے انہیں حقیقی مؤمن قرار دیا ہے، کیونکہ انہوں نے ایمان کو صرف زبانی دعویٰ تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اپنی جان، مال اور وقت کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے وقف کر دیا۔ ان کے ایمان کا معیار، سچائی، اور عمل کی گہرائی ایسی تھی کہ اللہ نے ان کی تعریف قرآن میں محفوظ فرما دی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُواْ وَجَـٰهَدُواْ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلصَّـٰدِقُونَ
مؤمن تو صرف وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر شک نہ کیا، اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا، یہی لوگ سچے ہیں۔
(الحجرات 15)

اسی طرح صحابہؓ کے ایمان، قربانی اور سچائی کو سراہتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا
أُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ حَقًّۭا ۚ لَّهُمْ دَرَجَـٰتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌۭ وَرِزْقٌۭ كَرِيمٌۭ
یہی لوگ سچے مؤمن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں، مغفرت ہے اور عزت والا رزق ہے۔
(الأنفال 4)

ان آیات میں الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا کا لقب ان صحابہؓ کو دیا گیا جنہوں نے ایمان کے تقاضے پورے کیے، دین کے لیے قربانیاں دیں، اور نبی ﷺ کے ساتھ ہر آزمائش میں ثابت قدم رہے۔

نبی کریم ﷺ نے بھی صحابہؓ کی تربیت اسی نہج پر فرمائی، جس میں خلوص، توحید، اخلاص، اور دین کے لیے قربانی بنیادی صفات تھیں۔ ان کا ایمان صرف کلمات تک محدود نہ تھا، بلکہ عمل، وفا، اور قربانی سے مزین تھا۔

پس، صحابہ کرامؓ کو حقیقی مؤمن اس لیے کہا گیا کہ وہ ایمان کی عملی تصویر بنے، اور ان کا طرزِ زندگی اہلِ ایمان کے لیے ہمیشہ کے لیے نمونہ بن گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post