قرآن مجید کے مطابق شعیب علیہ السلام کی دعوت کا مرکز بھی توحید اور اخلاقی تطہیر تھا، لیکن ان کی قوم مدین کو جن نظریاتی اور عملی خرابیوں سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی، اُن میں سب سے بڑا فساد ماپ تول میں کمی، مالی بددیانتی اور معاشی ظلم تھا۔ وہ لوگ نہ صرف اللہ کے ساتھ شرک کرتے تھے، بلکہ تجارتی لین دین میں خیانت، دھوکہ دہی، اور لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے تھے۔
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًۭا ۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ قَدْ جَآءَتْكُم بَيِّنَةٌۭ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا۟ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِى ٱلْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَـٰحِهَا ۚ
اور ہم نے مدین والوں کی طرف اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیل آ چکی ہے، پس ناپ تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ بعد اس کے کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہو۔
(الاعراف 85)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ شعیب علیہ السلام کی دعوت صرف شرک کے رد تک محدود نہ تھی، بلکہ انہوں نے اپنی قوم کے معاشی ظلم اور کرپشن پر بھی سخت گرفت کی۔ ان کی قوم یہ سمجھتی تھی کہ عبادت صرف مسجد یا معبد کی حد تک ہے، اور دنیاوی معاملات میں بے ایمانی قابلِ گرفت نہیں۔ شعیب علیہ السلام نے انہیں بتایا کہ عبادت کا تقاضا ہے کہ انصاف، دیانت، اور حلال کمائی کو اپنایا جائے۔
وَلَا تَقْعُدُوا۟ بِكُلِّ صِرَٰطٍۢ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ مَنْ ءَامَنَ بِهِۦ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًۭا
اور ہر راستے پر نہ بیٹھو کہ ڈراؤ، اور اللہ کے راستے سے روکو اُس کو جو اس پر ایمان لائے، اور اس میں کجی تلاش کرو۔
(الاعراف 86)
یہ آیت ان کے نظریاتی تعصب اور ہدایت کی راہ میں رکاوٹ کا ذکر کرتی ہے۔ یعنی وہ لوگ صرف مالی دھوکہ نہیں دیتے تھے، بلکہ حق بات سننے والوں کو بھی زبردستی روکتے، اور اسلام کی دعوت میں کجی پیدا کرتے۔
شعیب علیہ السلام کی دعوت نے مدین کی قوم کو توحید کی طرف بلایا، مالی دیانت داری سکھائی، اور معاشی انصاف قائم کرنے کی تلقین کی۔ ان کی قوم کا نظریاتی فساد یہ تھا کہ وہ دنیاوی معاملات کو دین سے جدا سمجھتے تھے، اور مالی فریب کو برا نہیں سمجھتے تھے۔ شعیب علیہ السلام نے انہیں سکھایا کہ توحید کا تقاضا ہے کہ ہر عمل، ہر لین دین، اور ہر فیصلہ میں اللہ کی مرضی کو مقدم رکھا جائے، اور یہی ایک پاکیزہ معاشرہ کی بنیاد ہے۔