قرآنِ مجید میں شجرہ طیبہ (پاکیزہ درخت) اور شجرہ خبیثہ (ناپاک درخت) کی مثالیں نیک اور بد لوگوں کے کردار، ایمان، اور اثرات کو سمجھانے کے لیے دی گئی ہیں۔
یہ مثال ابراہیم کی آیات 24 تا 26 میں بیان کی گئی ہے۔
قرآنِ مجید میں شجرہ طیبہ (پاکیزہ درخت) اور شجرہ خبیثہ (ناپاک درخت) کی مثالیں نیک اور بد لوگوں کے کردار، ایمان، اور اثرات کو سمجھانے کے لیے دی گئی ہیں۔
یہ مثال ابراہیم کی آیات 24 تا 26 میں بیان کی گئی ہے۔
شجرہ طیبہ – پاکیزہ درخت
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا كَلِمَةًۭ طَيِّبَةًۭ كَشَجَرَةٍۢ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌۭ وَفَرْعُهَا فِى ٱلسَّمَآءِ تُؤْتِىٓ أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍۢ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ بات (کلمۂ توحید) کی مثال پاکیزہ درخت کی طرح دی ہے؟ جس کی جڑ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان میں، اور وہ ہر وقت پھل دیتا ہے، اپنے رب کے حکم سے۔
شجرہ خبیثہ – ناپاک درخت
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍۢ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ ٱجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ ٱلْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍۢ
اور ناپاک بات (کفر و شرک) کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے،
جو زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا ہو جس کی کوئی جڑ نہیں، کوئی قرار نہیں۔
ایمان والا انسان ایسا ہوتا ہے جیسے ثمر آور درخت خود بھی فائدے میں، دوسروں کے لیے بھی رحمت۔
کافر یا گناہگار ایسا ہوتا ہے جیسے اکھڑا ہوا درخت نہ خود قائم، نہ دوسروں کے لیے مفید۔