ستاروں کے پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے؟

ستاروں کے پیدا کرنے کے مختلف مقاصد بیان کیے گئے ہیں، جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور کائنات کی تخلیق کے بارے میں گہری بصیرت فراہم کرتے ہیں۔

آسمان کی زینت کے طور پر
اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو آسمان کی خوبصورتی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ انسان اس کی قدرت پر غور و فکر کرے

وَلَقَدْ زَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِمَصَٰبِيحَ وَجَعَلْنَٰهَا رُجُومًۭا لِّلشَّيَٰطِينِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ ٱلسَّعِيرِ۝
اور بے شک ہم نے سب سے نیچے والے آسمان کو چراغوں (ستاروں) سے مزین کیا اور انہیں شیطانوں کو مارنے کا ذریعہ بنایا اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(الملک 5)

شیطانوں کو مارنے کے لیے
قرآن میں ذکر ہے کہ کچھ ستارے شیطانوں کو مارنے کے لیے بطور شہاب استعمال ہوتے ہیں، جو فرشتوں کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں

وَأَنَّا لَمَسْنَا ٱلسَّمَآءَ فَوَجَدْنَٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًۭا شَدِيدًۭا وَشُهُبًۭا۝
اور بے شک ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت چوکیداروں اور شہابوں سے بھرا ہوا پایا۔
(الجن 8)

رہنمائی کا ذریعہ
ستاروں کو اللہ تعالیٰ نے رات کے وقت زمین پر موجود لوگوں کے لیے راستہ تلاش کرنے کا ذریعہ بنایا

وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلنُّجُومَ لِتَهْتَدُوا۟ بِهَا فِى ظُلُمَٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍۢ يَعْلَمُونَ۝
اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کر سکو۔ بے شک ہم نے ان آیات کو جاننے والوں کے لیے کھول کر بیان کر دیا ہے۔
(الأنعام 97)

؎ ستارے اللہ کی تخلیق کی نشانی ہیں جو آسمان کو زینت بخشتے ہیں۔
؎ ستارے شیطانوں کو بھگانے اور اللہ کے نظام کی حفاظت کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔
؎ ستارے مسافروں کے لیے راستہ تلاش کرنے میں مددگار ہوتے ہیں، خاص طور پر سمندری اور صحرائی سفر میں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

قبروں پر قبے بنانا نبی ﷺ کی سنت کے خلاف کیوں ہے؟قبروں پر قبے بنانا نبی ﷺ کی سنت کے خلاف کیوں ہے؟

قبروں پر قبے بنانا بظاہر ایک تعظیمی عمل سمجھا جاتا ہے، مگر درحقیقت یہ عمل نبی کریم ﷺ کی سنت اور قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ شریعت اسلامیہ میں

کیا غریب اگر کم خیرات کرے تو کیا قابل ملامت ہے؟کیا غریب اگر کم خیرات کرے تو کیا قابل ملامت ہے؟

نہیں، غریب اگر کم خیرات کرے تو ہرگز قابلِ ملامت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی نیت اور اخلاص کی قدر ہے، نہ کہ مقدار کی۔ شریعت میں