سابقہ قومیں کیا عذاب کے وقت صرف اللہ کو پکارتیں تھیں؟

قرآنِ کریم میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ سابقہ قومیں عام حالات میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود بنا کر پکارتیں، لیکن جب ان پر کوئی شدید مصیبت یا عذاب آتا تو وہ اپنے تمام معبودوں کو بھول کر صرف اللہ کو پکارتیں۔ جیسے ہی مصیبت ٹلتی، وہ دوبارہ شرک اور نافرمانی میں مبتلا ہو جاتیں۔ یہ رویہ کئی قوموں میں یکساں نظر آتا ہے، اور قرآن نے بارہا اس پر تنبیہ کی ہے۔

قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَيْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۝ بَلْ اِيَّاهُ تَدْعُوْنَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَيْهِ اِنْ شَاۗءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ ۝
آپ ان سے پوچھئے ذرا مجھے بتاؤ اگر تم پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے یا تم پر قیامت برپا ہوجائے، اگر تم سچے ہو تو کیا (اس وقت) تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ بلکہ تم اسی کو پکاروگے پھر وہ اس (مصیبت) کو دُور فرما دے گا جس کے لیے تم اس کو پکارو گے اگر وہ چاہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) اُنھیں بھول جاؤ گے۔
(الانعام – 40)

فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ۝
پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو خالص ہو کر پکارتے ہیں، لیکن جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے، تو فوراً ہی وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔
(العنكبوت 65)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جب کوئی مصیبت، جیسے کہ سمندری طوفان، انہیں گھیر لیتی تو وہ اپنے تمام معبودوں کو بھول کر خالص اللہ کو پکارتے۔ لیکن جیسے ہی وہ محفوظ ہو کر خشکی پر پہنچ جاتے، وہ دوبارہ اپنے پرانے مشرکانہ عقائد کی طرف لوٹ آتے۔

وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا
اور جب تمہیں سمندر میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جنہیں تم پکارتے ہو وہ سب گم ہو جاتے ہیں سوائے اس (اللہ) کے، پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو تم منہ موڑ لیتے ہو، اور انسان بہت ناشکرا ہے۔
(الإسراء 67)

یہاں بھی یہی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ مصیبت کے وقت انسان کی فطرت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ صرف اللہ کو پکارے، لیکن جب وہ نجات پا لیتا ہے تو ناشکری کرتے ہوئے دوبارہ شرک کی طرف لوٹ آتا ہے۔

سابقہ قوموں کی مثالیں
یہی رویہ پچھلی امتوں کا بھی تھا، جیسے کہ قومِ فرعون، قومِ عاد، قومِ ثمود، اور قومِ نوح۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فرعون کے بارے میں فرمایا

فَلَمَّا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ۝
پھر جب (فرعون) ڈوبنے لگا تو کہنے لگا میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں (بھی) مسلمانوں میں سے ہوں۔
(يونس 90)

یہاں فرعون کی حالت بیان کی جا رہی ہے کہ ساری زندگی اللہ کا انکار اور سرکشی کرنے کے بعد جب وہ موت کے منہ میں پہنچ گیا، تب اس نے اللہ کو خالص دل سے پکارا، مگر اس وقت توبہ قبول نہ کی گئی۔

اسی طرح، اللہ تعالیٰ قومِ عاد اور ثمود کے بارے میں فرماتا ہے

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِۦ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ۝
پھر جب انہوں نے اسے بادل کی شکل میں اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ (نہیں!) بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے، یہ ایک آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔
(الأحقاف 24)

یہاں بیان کیا جا رہا ہے کہ قومِ عاد پر جب اللہ کا عذاب آیا تو انہوں نے پہلے اسے ہلکا لیا، لیکن جب وہ مکمل طور پر عذاب میں گھر گئے، تب انہوں نے اللہ کو پکارا، مگر اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔

یہ تمام آیات اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ سابقہ قومیں عام حالات میں اللہ کو چھوڑ کر دوسرے معبودوں کو پکارتیں، لیکن جب ان پر کوئی بڑی مصیبت یا عذاب آتا، تو وہ سب کو بھول کر خالص اللہ کو پکارنے لگتیں۔ تاہم، جیسے ہی مصیبت ٹل جاتی، وہ دوبارہ اپنے پرانے شرک اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتیں۔

یہ روش آج بھی بہت سے لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ مصیبت کے وقت وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، لیکن جب حالات بہتر ہو جاتے ہیں تو دوبارہ غفلت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

ایمان کن چیزوں پر لانا ضروری ہے؟ایمان کن چیزوں پر لانا ضروری ہے؟

قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌکہہ دو وہ اللہ ایک ہے۔(الاخلاص 1) نَزَّلَ عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًۭا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ(آلِ عمران 3) وَبِٱلْـَٔاخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَاور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔(البقرہ 4)

کیا کفار کی چالیں اتنی سخت تھیں کہ قریب تھا کہ رسول ﷺ بھی انکی طرف مائل ہو جاتے؟کیا کفار کی چالیں اتنی سخت تھیں کہ قریب تھا کہ رسول ﷺ بھی انکی طرف مائل ہو جاتے؟

بہت اہم اور نکتہ خیز بات ہے اور اس کا جواب قرآن کی روشنی میں بالکل واضح ہے۔ وَإِن كَادُوا۟ لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ ٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ لِتَفْتَرِىَ عَلَيْنَا غَيْرَهُۥ ۖ وَإِذًۭا