سابقہ قومیں اپنے کفر پر انبیاء کو باپ دادا کی پیروی کا حوالہ اس لیے دیتی تھیں کہ وہ اپنی گمراہی اور باطل عقائد کے لیے ایک عذر اور جواز پیش کر سکیں۔ یہ ان کی حق کو تسلیم نہ کرنے کی ضد اور ہٹ دھرمی کا مظہر تھا۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس رویے کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں قوموں نے انبیاء کی دعوت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کو اپنی گمراہی کا جواز بنایا۔ جیسے فرمایا
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ
اور جب اُن سے کہا جا تا ہےکہ اس کی پیروی کروجو اللہ نے نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا اگرچہ اُن کے باپ دادا (دین کی) کچھ نہ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں۔
(البقرہ-170)
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کے طریقوں کو حق تسلیم کرتے تھے، چاہے وہ گمراہی اور کفر پر مبنی ہوں۔
آباؤ اجداد کی پیروی کی چند وجوہات
معاشرتی دباؤ اور رسم و رواج کو ترک نہ کر سکنا اپنے آباؤ اجداد کی تقلید کو ترک کرنے کا مطلب معاشرتی روایت اور خاندان کے اصولوں کو چھوڑنا تھا، جو ان کے لیے قابل قبول نہ تھا۔
حق کو تسلیم نہ کرنے کی ضد تھی انبیاء کی دعوت ان کی خواہشات اور مفادات کے خلاف ہوتی تھی، لہٰذا وہ حق کو ماننے کے بجائے باپ دادا کی پیروی کا بہانہ کرتے۔
دینداری کا فقدان اور جہالت پر آسانی محسوس کرنا اکثر قوموں کے پاس دین کی صحیح تعلیمات موجود نہیں تھیں، اور وہ تقلید کو ہی دین سمجھ بیٹھتے تھے۔
معاشرتی مقام کا خوف ہونا حق قبول کرنے سے انہیں اپنے معاشرتی مقام اور سرداری کے کھو جانے کا خوف ہوتا تھا۔
سابقہ قوموں کا اپنے کفر پر انبیاء کو باپ دادا کی پیروی کا حوالہ دینا محض ایک عذر تھا جو انہوں نے اپنی ضد، جہالت، اور دنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے گھڑا تھا۔ انبیاء نے ہمیشہ حق بات کی دعوت دی اور لوگوں کو عقل اور علم کے ذریعے حق کو قبول کرنے کی طرف بلایا۔ آج بھی یہ رویہ موجود ہے، اوراہل ایمان کو چاہیے کہ وہ دین کے معاملے میں حق کو تلاش کریں، نہ کہ تقلید کو اپنائیں۔