قرآنِ کریم میں رزق کے اضافے کا تعلق صرف دنیاوی تدبیروں سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق، اعمالِ صالحہ، اور اخلاقی رویّوں سے جوڑا گیا ہے۔ اللہ نے واضح طور پر بتایا کہ جو بندے تقویٰ، شکر، صلہ رحمی اور استغفار کو اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے آسمان سے اور زمین سے رزق کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭاوَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا۔
(الطلاق 2-3)
یہ آیت بتاتی ہے کہ تقویٰ (پرہیزگاری) انسان کے لیے رزق میں کشادگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، چاہے بظاہر اسباب نظر نہ آئیں، اللہ ایسے بندے کو غیب سے نوازتا ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ استغفار کی تاثیر بیان فرماتا ہے
فَقُلْتُ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًۭا يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَٰلٍۢ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّـٰتٍۢ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَـٰرًۭا
تو میں نے کہا اپنے رب سے مغفرت مانگو، یقیناً وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں بھیجے گا، اور تمہیں مال اور بیٹے عطا کرے گا، اور تمہارے لیے باغات بنائے گا اور نہریں جاری کرے گا۔
( نوح 7110-12)
یہاں استغفار کو رزق، مال، اولاد، زمین کی زرخیزی، اور نعمتوں کی فراوانی کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ یعنی معافی مانگنا نہ صرف باطنی فائدہ دیتا ہے بلکہ دنیاوی برکتوں کا دروازہ بھی کھولتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کو بھی رزق میں اضافے کا راستہ قرار دیا
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں زیادہ دوں گا۔
(ابراہیم 7)
یہ اصول ہر نعمت پر لاگو ہوتا ہے، خصوصاً رزق پر۔ جو شخص اللہ کی دی ہوئی روزی پر قناعت اور شکر کرتا ہے، اللہ اسے مزید عطا فرماتا ہے۔
ئعنی یہ کہ قرآن مجید کے مطابق رزق میں اضافہ تقویٰ، استغفار، شکر اور نیک اعمال کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ یہ طریقے اللہ کے وعدے اور نظامِ فطرت کے مطابق ہیں، جن میں دنیاوی اسباب کے ساتھ ساتھ روحانی دروازے بھی شامل ہوتے ہیں۔ حقیقی برکت اسی رزق میں ہے جو حلال، پاک، اور اللہ کی رضا سے حاصل ہو۔