رحمت عطا ہونے پر بلعموم انسانوں کی کیا عادت ہوتی ہے؟

اللہ تعالیٰ انسان کی فطرت کا ایک پہلو بیان فرماتا ہے کہ جب رحمت (نعمت) عطا ہوتی ہے اور پھر واپس لے لی جاتی ہے تو اکثر انسان ناشکرا اور مایوس ہو جاتا ہے۔

وَلَئِنْ أَذَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِنَّا رَحْمَةًۭ ثُمَّ نَزَعْنَـٰهَا مِنْهُ إِنَّهُۥ لَيَـُٔوسٌۭ كَفُورٌۭ ۝ وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَاۗءَ بَعْدَ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْهُ لَيَقُوْلَنَّ ذَهَبَ السَّـيِّاٰتُ عَنِّيْ ۭ اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُــوْرٌ ۝

اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے کوئی رحمت (نعمت) چکھا دیں، پھر اسے اس سے چھین لیں تو وہ یقیناً مایوس (یَـُٔوسٌ) اور ناشکرا (كَفُورٌ) ہو جاتا ہے۔ اور اگر تکلیف کے بعد جو انسان کو پہنچی تھی ہم اسے نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ کہنے لگتا ہے کہ ساری مشکلات ختم ہوئی یقینا وہ بڑا متکبر اور فخر کرنے والا ہے
(ھود – 9، 10)

انسان کی کمزوری اور ایمان کی کمی کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ صرف حالتِ نعمت میں خوش ہوتا ہے، اور آزمائش میں صبر و شکر کے بجائے شکوہ و مایوسی اختیار کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا تمام انبیاء کا عقیدہ ایک جیسا تھا؟کیا تمام انبیاء کا عقیدہ ایک جیسا تھا؟

قرآن مجید کی روشنی میں تمام انبیاء کا عقیدہ، پیغام اور مقصد ایک ہی تھا اللہ کی توحید، اس کی عبادت، اور شرک سے اجتناب۔ مختلف قوموں، زبانوں اور زمانوں