دین کی تبلیغ کیسے کریں؟

دین کی تبلیغ ایک عظیم ذمہ داری ہے، اور اسے حکمت، نرمی اور اخلاص کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔ قرآن و سنت ہمیں اس بارے میں واضح ہدایات فراہم کرتے ہیں۔ تبلیغ کے چند مؤثر طریقے ملاحظہ ہوں

علم اور بصیرت کے ساتھ تبلیغ کریں۔
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ۔
( النحل 125)
دین کی دعوت کے لیے خود علم حاصل کرنا لازمی ہے، تاکہ جہالت یا گمراہی نہ پھیلائی جائے۔

کردار کے ذریعے تبلیغ
وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ
اور بےشک آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر ہیں۔
(القلم4) رسول اللہ ﷺ کا عمل سب سے بڑی دعوت تھا۔
نرم خوئی، دیانت، سچائی، تحمل یہ سب دعوت کے موثر ذریعہ ہے۔ لوگ الفاظ سے زیادہ اعمال سے متاثر ہوتے ہیں۔

اخلاص نیت رکھیں
دعوت کا مقصد اللہ کی رضا ہو، نہ شہرت، نہ بحث جیتنا۔
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَٰحِدَةٍ أَن تَقُومُوا۟ لِلَّهِ
کہہ دو میں تمہیں بس ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں، کہ اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
(سبا 46)

لوگوں کی سطح، نفسیات اور حالات کو سمجھو، ہر فرد کو اس کی سمجھ، سوالات اور مسائل کے مطابق بات پہنچاؤ۔
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ
اور بھلائی اور بُرائی برابر نہیں ہوتی تم (بدی کو) بہترین نیکی سے دفع کرو پس (تم دیکھو گے) وہی شخص جس کے اور تمھارے درمیان دشمنی ہے وہ گویا گرم جوش دوست بن جائے گا۔
(فصلت34)
نرمی اختیار کرو، سختی سے دل بند ہو جاتے ہیں۔

جھگڑالو انداز سے بچو
وَلَا تُجَـٰدِلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ
اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر بہترین طریقے سے۔
(العنكبوت 46)
تبلیغ کا مطلب ہے احسن انداز سے حق بات پہنچانا، زبانوں کو ہرانا نہیں۔

صبر اور استقامت
ردعمل، مخالفت اور طنز کا سامنا ہوگا مگر مبلغ کو ثابت قدم رہنا ہوگا، جیسے انبیاء علیہم السلام رہے۔
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ ۭ كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ ۙ لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍ ۭ بَلٰــغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ
تو (اے رسولﷺ)آپ صبر کیجیے جیسے عزم (وہمت) والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے بارے میں جلدی نہ کیجیے گویا جس دن وہ اس (قیامت) کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو (سمجھیں گے) جیسے (دنیا میں) دن کی ایک ہی گھڑی رہے (یہ قرآن) ایک (عظیم) پیغام ہے تو (اب) وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان لوگ ہیں۔
(الحقاف35)

عملی مواقع سے فائدہ اٹھانا
روزمرہ بات چیت، سوشل میڈیا، خطبے، تعلیم، مدد، خیرات ہر موقع کو دعوت کا ذریعہ بناؤ۔
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ
(مسلمانو ! ) تم بہترین اُمّت ہو جسے لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے پیدا کیا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برا ئی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہلِ کتاب ایمان لے آتے تو یہ اُن کے حق میں بہتر ہوتا اُن میں سے کچھ لوگ مومن ہیں اور اُن میں سے اکثر فاسق ہیں۔
(آل عمران110)

الغرض کہ دین کی تبلیغ علم، عمل، اخلاص، نرمی، صبر اور حکمت سے کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کی آمد کا کیا مقصد تھا؟ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کی آمد کا کیا مقصد تھا؟

ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کی آمد کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد بار آیا ہے، اور ان کی آمد کے دو بڑے مقاصد تھے ابراہیم علیہ السلام کو

مشرکین مکہ کی رائج جاہلانہ اور مشرکانہ رسم کیا تھیں؟مشرکین مکہ کی رائج جاہلانہ اور مشرکانہ رسم کیا تھیں؟

مکہ کے مشرکین کی زندگی میں کئی ایسی جاہلانہ اور مشرکانہ رسمیں تھیں جو انہوں نے بغیر کسی الہامی دلیل کے اختیار کر رکھی تھیں۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات

نفاق کی تین نمایاں علامتیں قرآن میں کیا ہیں؟نفاق کی تین نمایاں علامتیں قرآن میں کیا ہیں؟

قرآنِ مجید نے نفاق (منافقت) کو ایک انتہائی خطرناک روحانی بیماری قرار دیا ہے، جو ظاہر میں ایمان اور باطن میں کفر پر قائم ہوتی ہے۔ نفاق کی کئی علامات