دو باغ والوں کا قصہ الکہف میں بیان ہوا ہے۔ یہ ایک تمثیلی واقعہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تکبر، دنیا پرستی، اور ناشکری کے انجام کو بڑی حکمت سے واضح فرمایا ہے۔ یہ قصہ آج کے انسان کے لیے بھی بہت بڑا عبرت و نصیحت کا پیغام رکھتا ہے۔
وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ…
اور ان کے لیے دو آدمیوں کی مثال بیان کرو…
(الکہف 32)
قصے کا خلاصہ
دو آدمی ایک شکر گزار مؤمن، دوسرا مغرور مالدار
اللہ نے ان میں سے ایک کو دو خوبصورت باغ دیے، انگوروں سے بھرے ہوئے، بیچ میں کھجوریں، اور فصل کی پیداوار بھی تھی۔ اللہ نے ان باغوں کو خوب سیراب کیا، اور انہیں کسی بھی کمی کا سامنا نہ تھا۔
مغرور کی خود پسندی
وہ کہنے لگا میرے پاس تم سے زیادہ مال اور عزت ہے
یہ باغ کبھی ختم نہ ہوگا
قیامت آئے گی بھی تو اگر میں لوٹایا گیا، تو مجھے اس سے بھی بہتر ملے گا
(الکہف 34-36)
اس کے الفاظ میں تکبر، اللہ کے انکار کی بو اور آخرت کا مذاق تھا۔
مؤمن کی نصیحت
دوسرے آدمی (مؤمن) نے عاجزی سے نصیحت کی
کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے، پھر نطفے سے پیدا کیا؟
تجھے چاہیے تھا کہ باغ میں داخل ہوتے ہوئے کہتا ماشاءاللہ، لا قوۃ الا باللہ
(الکہف 37-39)
انجام باغ کی ہلاکت
فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنفَقَ فِيهَا…
پھر اس کی ساری فصل تباہ کر دی گئی، اور وہ اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا…
(الکہف 42)
اس کے باغ ایک ہی رات میں تباہ کر دیے گئے۔ نہ پانی رہا، نہ پھل۔
اس میں دور حاضر کے نوجوانوں کے لیے پیغام ہے کہ اگر تمہیں مال، شہرت، صلاحیت، یا کامیابی ملی ہو تو اللہ کو نہ بھولو۔ یاد رکھو جو چیز اللہ کی طرف منسوب نہیں، وہ ضائع ہونے کے قریب ہے۔