دنیا کی رونق اور خوبصورتی کو قرآن نے بارش کے بعد اگنے والی گھنی نباتات سے تشبیہ دی ہے، جو کچھ عرصہ بعد خشک ہو کر چورا چورا ہو جاتی ہیں اور ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر نعمت اور خوبصورتی عارضی اور فانی ہے، اور آخرکار ختم ہو جاتی ہے۔
وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا كَمَآءٍ أَنزَلْنَـٰهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَٱخْتَلَطَ بِهِۦ نَبَاتُ ٱلْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًۭا تَذْرُوهُ ٱلرِّيَـٰحُ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ مُّقْتَدِرًۭا
اور ان کے لیے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو، جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا، پھر اس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں، پھر وہ خشک ٹوٹ پھوٹ کر چورا چورا ہو گئیں جنہیں ہوائیں اُڑاتی پھرتی ہیں، اور اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔
(الکھف- 45)
دنیا کی زندگی کی فانی حقیقت
اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی کو ایک بارش کی طرح قرار دے رہے ہیں
بارش آتی ہے زمین سرسبز ہو جاتی ہے پھول کھلتے ہیں، لیکن تھوڑی مدت میں وہ سب مرجھا کر بکھر جاتا ہے۔
یہی دنیا کی حقیقت ہے عروج آتا ہے انسان خوش ہوتا ہے مگر سب کچھ فنا ہو جاتا ہے۔
دنیاوی زینت کی حقیقت
دنیا کی رونق (مال، طاقت، خوبصورتی) محض چند لمحوں کی چمک ہے دیکھنے میں دلکش مگر انجام کار راکھ اور خاک!
انسان کی عبرت کے لیے نشانی ہہ تمثیل انسان کو یاد دلاتی ہے کہ کسی چیز پر غرور نہ کرو، آخرت کی فکر کرو، اصل بقا اللہ کی رضا میں ہے۔
اللہ کی قدرت کا اعلان
آیت کا اختتام بتاتا ہے وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ مُّقْتَدِرًۭا
اللہ ہر چیز پر کامل اختیار رکھتا ہے۔