دعوتِ دین میں عقل اور وحی کا تعلق نہ صرف بنیادی ہے بلکہ ایک دوسرے کے تکمیل کرنے والے دو زاویے ہیں۔ قرآنِ مجید نے انسان کے عقل و فہم کو بیدار کرنے کے لیے بارہا دعوتِ فکر دی ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح فرمایا کہ ہدایت کی آخری سند وحیِ الٰہی ہے۔ انبیاء کی دعوت اس پہلو سے جامع ہوتی ہے کہ وہ انسانی عقل کو مخاطب کرتے ہیں، مگر اسے اللہ کی طرف سے نازل شدہ وحی کے سانچے میں ڈھالتے ہیں، تاکہ سوچ کا راستہ افراط و تفریط سے محفوظ رہے۔
قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُم بِأَهْدَىٰ مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَيْهِ ءَابَآءَكُمْ ۖ قَالُوٓا۟ إِنَّا بِمَآ أُرْسِلْتُم بِهِۦ كَـٰفِرُونَ
کہا (کیا تم تب بھی انکار کرو گے) اگرچہ میں تمہارے باپ دادا کے دین سے بہتر ہدایت لے کر آیا ہوں؟ انہوں نے کہا جو کچھ تم دے کر بھیجے گئے ہو، ہم تو اس کے ہی منکر ہیں۔
(الزخرف 24)
اس آیت میں ابراہیم علیہ السلام کی دعوت عقل اور وحی دونوں پر مبنی تھی۔ انھوں نے اپنی قوم کے باطل معبودوں کو عقل کے ذریعے رد کیا، اور ساتھ ہی وحی کی روشنی میں انہیں اللہ کی طرف بلایا۔ قوم نے جذبات اور تقلید کو ترجیح دی، جبکہ نبی نے عقل کی دعوت دی جو وحی کے تابع ہو۔
قرآن کا طرزِ استدلال عقلی و نقلی دونوں حجتوں کو سامنے رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا أَفَلَا تَعْقِلُونَ؟، أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ؟ کیا تم عقل نہیں کرتے؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟ یہ آیات عقل کو غیر فعال نہیں کرتیں، بلکہ وحی کے تابع کر کے اسے راہِ ہدایت پر ڈالتیں ہیں۔ انبیاء نے انسان کی فطرت کو جگایا، عقل کو دلیل دی، مگر سمت ہمیشہ وحی سے متعین کی۔
عقل کی پرواز وحی کے بغیر اندھیرے میں ہے، اور وحی کے احکام عقل کے بغیر ٹھوس سمجھ سے خالی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے انبیاء نے انسان کی عقل کو وحی کے نور سے روشن کیا، تاکہ نہ وہ اندھا مانے اور نہ خود ساختہ سوچ پر اتر آئے۔
دعوتِ دین میں عقل کو متحرک کرنا اور وحی کی پیروی کروانا لازم و ملزوم ہیں۔ عقل انسان کو تلاش تک پہنچاتی ہے، اور وحی اسے جواب فراہم کرتی ہے۔ انبیاء کی دعوت میں یہی توازن نظر آتا ہے دلائل عقل کے، رہنمائی وحی کی، اور نتیجہ ہدایت۔ عقل جب وحی کی رہنمائی میں چلتی ہے تو وہی سب سے اعلیٰ ہدایت بن جاتی ہے، اور یہی اللہ کا پسندیدہ طریقہ ہے۔