قرآن مجید کے مطابق انبیاء علیہم السلام نے دعوتِ توحید کی صداقت کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے اذن سے مختلف معجزات دکھائے، تاکہ لوگوں کے دلوں میں یقین پیدا ہو اور باطل عقائد کی بنیادیں ہل جائیں۔ یہ معجزات محض کرامت یا دکھاوا نہیں تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کی سچائی اور توحید کے اثبات کے لیے واضح نشانیاں تھیں۔
وَمَا نُرْسِلُ ٱلْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ۖ وَيُجَـٰدِلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِٱلْبَـٰطِلِ لِيُدْحِضُوا۟ بِهِ ٱلْحَقَّ ۖ وَٱتَّخَذُوٓا۟ ءَايَـٰتِى وَمَآ أُنذِرُوا۟ هُزُوًۭا
اور ہم رسولوں کو صرف خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجتے ہیں، اور وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں وہ باطل سے جھگڑتے ہیں تاکہ حق کو باطل کر دیں، اور میری آیات اور جن باتوں سے انہیں ڈرایا گیا، ان کو مذاق بنا لیتے ہیں۔
(الکہف 56)
یہ آیت بیان کرتی ہے کہ معجزات کی اصل غرض دعوتِ حق کو تقویت دینا، کفار کی ہٹ دھرمی کو بےنقاب کرنا، اور انسانوں کو توحید کی طرف رجوع کی ترغیب دینا تھی۔ انبیاء نے معجزات کے ذریعے توحید کا پیغام یوں مؤثر بنایا کہ لوگ عقل، مشاہدے اور وجدان تینوں ذریعے سے یقین پر آ جائیں۔
مثلاً موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے اذن سے عصا کو سانپ بنایا، ہاتھ کو چمکتا ہوا ظاہر کیا، اور سمندر کو چیر کر راستہ بنایا (الشعراء 63)، تاکہ فرعون کی جھوٹی ربوبیت کو توڑ کر توحید کو ظاہر کریں۔
عیسیٰ علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کیا، اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا دی، مٹی سے پرندہ بنا کر پھونک ماری (آل عمران 49)، تاکہ اللہ کی قدرت اور وحدانیت ظاہر ہو۔
صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کے مطالبے پر پتھر سے اونٹنی نکالی جو اللہ کی نشانی تھی (الشمس 13)، مگر ان کی قوم نے انکار کیا۔
محمد ﷺ کا قرآن سب سے بڑا معجزہ ہے، جو عقل، فصاحت، بلاغت، اور روحانی اثر میں اپنی مثال آپ ہے، اور رہتی دنیا تک دعوتِ توحید کا زندہ ثبوت ہے۔
معجزات، انبیاء کی دعوتِ توحید کا جزء لازم تھے۔ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی صداقت کو ظاہر کیا، اور کفار و مشرکین کو حجت تمام کر دی۔ لیکن انبیاء نے کبھی معجزے کو مرکزِ دعوت نہیں بنایا، بلکہ ہمیشہ اس بات پر زور دیا اللہ کی بندگی کرو، اسی سے ڈرو، اور شرک سے بچو۔ یہی توحید کی اصل دعوت ہے، اور معجزات اس کی تقویت کا ذریعہ۔