قرآنِ مجید نے دشمنوں سے مقابلے کے وقت مسلمانوں کو تین بنیادی اوصاف اپنانے کا حکم دیا صبر، ثابت قدمی، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنا۔ ان اوصاف سے دل مضبوط ہوتے ہیں، صفیں منظم رہتی ہیں، اور اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةًۭ فَثْبُتُوا۟ وَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ كَثِيرًۭا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو! جب تم دشمن کے کسی گروہ سے ملو تو ثابت قدم رہو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
(الأنفال 45)
اس آیت میں دو اہم ہدایات ہیں پھر اسکا ثمرہ ذکر کیا ہے۔ فرمایا
ثَبتُوا: یعنی ڈٹ جاؤ، پیچھے نہ ہٹو، گھبراہٹ نہ دکھاؤ۔
وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا: مسلسل اللہ کو یاد کرو، تاکہ دلوں کو سکون ملے اور نیت خالص ہو۔
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ: ان دو اوصاف کے ذریعے ہی کامیابی حاصل ہو گی۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے ہر جنگ میں ان اوصاف کو اپنایا، خاص طور پر بدر اور احد میں۔ وہ نہ صرف بہادری سے لڑے، بلکہ ہر لمحے اللہ کو یاد کرتے رہے، اسی پر بھروسا کیا، اور کبھی دشمن سے مرعوب نہ ہوئے۔
یہی اوصاف آج بھی ہر مسلمان کو ہر باطل کے مقابلے میں اپنانے چاہیں ثبات، ذکر، اور اخلاص۔ یہی فتح کی کنجی ہیں۔