خضرؑ اور موسیٰؑ کا واقعہ سورۂ کہف میں علم، صبر، اور اللہ کی حکمت پر بھروسے کا گہرا سبق دیتا ہے۔ قرآن نے یہ واقعہ بطور تمثیل بیان فرمایا تاکہ واضح ہو جائے کہ ظاہری واقعات کے پیچھے چھپی حقیقت ہمیشہ ہماری عقل کے
مطابق نہیں ہوتی، اور حقیقی علم صبر کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔
قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًۭا
“خضرؑ نے کہا: تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔”
(الکہف: 67)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ علمِ لدنی (اللہ کی طرف سے خاص علم) کو سمجھنے کے لیے صرف عقل کافی نہیں، بلکہ صبر اور عاجزی بھی ضروری ہے۔ موسیٰؑ باوجود نبی ہونے کے، خضرؑ کے ساتھ تین مواقع پر صبر نہ کر سکے، اور سوال کر بیٹھے۔
علم ہمیشہ فوری طور پر سمجھ میں نہیں آتا، اس کے لیے وقت، برداشت، اور خاموشی ضروری ہے۔ صبر نہ ہو تو انسان جلد بازی میں فیصلے کرتا ہے، جبکہ اللہ کی حکمت دیر سے ظاہر ہوتی ہے۔ سیکھنے والا اگر متکبر یا بے صبر ہو، تو وہ علم کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتا۔
صحابہؓ ہمیشہ نبی ﷺ کے علم پر اعتماد کرتے تھے، چاہے کوئی بات فوراً سمجھ نہ آئے، وہ صبر کے ساتھ سنتے اور عمل کرتے۔ تو لہذا موسیٰؑ اور خضرؑ کا واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ علم صبر سے حاصل ہوتا ہے، اور ہر چیز کی حکمت ہمیں فوراً معلوم نہیں ہوتی۔ اللہ کے فیصلے انسان کے ظاہری فہم سے بالاتر ہوتے ہیں، اس لیے طالب علم کو چاہیے کہ وہ علم سیکھتے وقت عاجزی، صبر، اور مکمل بھروسا رکھے، تاکہ وہ حکمت کے راز تک پہنچ سکے۔