جہاد فرض ہونے کے بعد جہاد کے لئے نہ نکلنے کا وبال کیا ہے؟

جہاد فرض ہونے کے بعد اگر کوئی مسلمان بلا عذر شرعی اس میں شریک نہ ہو، تو قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے لیے بہت سخت وعید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد سے پیچھے ہٹنے والوں کو دنیا و آخرت کی رسوائی، اللہ کے غضب، اور عذاب عظیم کی وعید سنائی ہے۔

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ ٱنفِرُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱثَّاقَلْتُمْ إِلَى ٱلْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا مِنَ ٱلْـَٔاخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌۭ۝إِلَّا تَنفِرُوا۟ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًۭا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْـًۭٔا ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ ۝

اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں نکلو، تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے ہو؟ حالانکہ دنیا کی زندگی کا سامان تو آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر تم نہ نکلو گے تو وہ تمہیں دردناک عذاب دے گا، اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا، اور تم اللہ کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(التوبہ – 38، 39)

منافقین کی وہ حالت بیان کی گئی ہے جو جہاد سے پیچھے ہٹے، اور ان کے لیے دوزخ کی بشارت دی گئی

فَرِحَ ٱلْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَـٰفَ رَسُولِ ٱللَّهِ وَكَرِهُوا۟ أَن يُجَـٰهِدُوا۟ بِأَمْوَٟلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَقَالُوا۟ لَا تَنفِرُوا۟ فِى ٱلْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّۭا لَوْ كَانُوْا يَفْقَهُوْنَ۝

جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے وہ خوش ہوئے اپنے گھروں میں بیٹھے رہنے پر اور ناپسند کیا کہ اللہ کے راستے میں مال و جان سے جہاد کریں، اور کہا گرمی میں نہ نکلو، کہو جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے کاش کہ وہ سمجھتے۔
(التوبہ – 81)

دردناک عذاب کی وعید سے پتا چلتا ہے کہ یہ صرف دنیاوی کمزوری نہیں بلکہ دینی جرم ہے۔