قرآنِ مجید نے جہاد سے پیچھے ہٹنے والوں پر اللہ کی ناراضی کو نہایت سخت الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ کیونکہ جب دینِ حق کو تقویت اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لیے اہلِ ایمان کی جان و مال درکار ہو، تو اس وقت پیچھے ہٹنا نہ صرف بزدلی ہے، بلکہ یہ اللہ کے دین سے بے وفائی اور امت کی خیانت شمار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِلَّا تَنفِرُوا۟ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًۭا أَلِيمًۭا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْـًۭٔا ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ
اگر تم (جہاد کے لیے) نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا، اور تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا، اور تم اللہ کا کچھ بھی نقصان نہ کر سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(التوبہ 39)
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کچھ مسلمان دنیا کی دلچسپیوں میں لگ کر جہاد سے پیچھے ہٹنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دین کا کام انفرادی افراد پر نہیں رکا ہوا، اگر کوئی پیچھے ہٹے گا تو اللہ کسی اور کو کھڑا کر دے گا، اور پیچھے ہٹنے والوں پر سخت عذاب نازل ہو سکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا
جس نے جہاد نہ کیا، اور نہ جہاد کی نیت کی، وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔
(مسلم 1910)
صحابہ کرامؓ کی زندگی اس بات کی عملی گواہی ہے کہ جب بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بلایا، وہ کبھی پیچھے نہ ہٹے، چاہے حالات کٹھن ہوں یا دشمن قوی ہو۔ پس، قرآن کی نظر میں جہاد سے پیچھے ہٹنا محض کمزوری نہیں بلکہ عذابِ الٰہی کا سبب بن سکتا ہے، اور اس سے دین و امت کو نقصان ہوتا ہے۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ اللہ کے دین کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ انہی سے راضی ہوتا ہے جو اس کی راہ میں قربانی دیتے ہیں۔