قرآنِ حکیم جھگڑا کرنے والوں کو فساد، غرور اور دشمنی سے بچنے اور صلح و اصلاح کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن اختلاف کو انسانی فطرت کا حصہ مانتا ہے، لیکن اس کا حل جھگڑے، انتقام یا انا نہیں بلکہ عدل، صبر، اور خیرخواہی میں بتاتا ہے۔ اہل ایمان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جھگڑنے والوں کے درمیان صلح کروائیں، تاکہ شیطان کے پیدا کردہ فاصلے ختم ہوں اور معاشرے میں امن قائم رہے۔
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌۭ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
( الحجرات 10)
وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا۟ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا
اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔
( الحجرات 9)
قرآن کا پیغام یہ ہے کہ اختلاف کو جنگ کی صورت میں بدلنے کی بجائے نرمی، مشورے، اور عدل سے سلجھایا جائے۔ قرآن نے مؤمنوں کو بھائی قرار دے کر یہ سمجھایا کہ جھگڑا درحقیقت بھائی چارے کو توڑتا ہے اور امت کے اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر اختلاف ہو بھی جائے تو اسے صلح کی نیت سے حل کرنا اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
مزید برآں، قرآن اصلاح کرنے والوں کو بلند مقام دیتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کے جھگڑوں میں صلح کی کوشش کرتے ہیں، وہ فتنہ کو ختم کرتے اور دلوں کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کے لیے قرآن میں خیر کا وعدہ ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر صلح کے لیے کچھ چھپانی یا نرمی اختیار کرنی پڑے تو وہ بھی قابلِ قبول ہے بشرطیکہ نیت اصلاح کی ہو۔
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ جھگڑا نہ صرف دلوں کو توڑتا ہے بلکہ شیطان کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ لیکن صلح وہ عمل ہے جو اللہ کی رضا، رحمت، اور مغفرت کے دروازے کھولتا ہے۔ اس لیے مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ اختلاف میں شدت نہ پیدا کرے بلکہ دلوں کو جوڑنے والا اور اصلاح کرنے والا بنے۔