قرآنِ مجید کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ ایمان صرف اللہ پر یقین کا نام نہیں، بلکہ ہر باطل اور طاغوتی نظام سے براءت (بیزاری) اختیار کرنا بھی ایمان کا جزوِ لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
“فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ”
“پھر جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، اس نے ایک مضبوط کڑا تھام لیا۔”
(البقرہ: 256)
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ وَقَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا ۭ كَذٰلِكَ يُرِيْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَيْهِمْ ۭ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ
(یادکرو) جب بیزار ہوجائیں گے وہ (پیشوا) جن کی پیروی کی گئی تھی اُن سے جنھوں نے پیروی کی تھی اور وہ (سب) عذاب دیکھ لیں گے اور اُن سے سب تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ اور پیروی کرنے والے کہیں گے کاش ! ہمیں ایک دفعہ (دنیا میں) پلٹ جانے کا موقع مل جاتا تو ہم بھی اِن (پیشواؤں) سے بے زار ہو جاتے جیسے وہ (آج) ہم سے بے زار ہوگئے ہیں اِسی طرح اللہ اُنھیں اُن کے اعمال حسرت بناکر دکھائے گا اور وہ آگ (کے عذاب) سے نہ نکل پائیں گے۔
(البقرہ-166، 167)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایمان اس وقت معتبر ہے جب انسان طاغوت کا انکار کرے، یعنی ہر ظالم، جابر، مشرکانہ، یا دینِ حق کے مخالف نظام اور رہنما سے دلی و عملی بیزاری اختیار کرے۔ جو لوگ دنیا میں طاغوت کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہیں، یا ان سے قلبی تعلق رکھتے ہیں، وہ ایمان کی اصل روح سے محروم ہوتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا: “من أحب لله، وأبغض لله، وأعطى لله، ومنع لله، فقد استكمل الإيمان”
“جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اللہ کے لیے بغض رکھا، اللہ کے لیے دیا، اور اللہ کے لیے روکا، اس نے ایمان کو مکمل کیا۔”
سنن ابی داود، حدیث نمبر: 4681
لہٰذا جو شخص دنیا میں طاغوت سے نفرت اور بیزاری ظاہر نہیں کرتا، وہ ایمان کی ایک بنیادی شرط کو ترک کر رہا ہے، اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کے لیے عذاب سے بچاؤ کی کوئی ضمانت قرآن و سنت میں نہیں ملتی۔ بلکہ سورہ صف، سورہ نساء اور سورہ توبہ جیسی متعدد آیات میں واضح طور پر کفار و طاغوت کے دوستوں کو وعید سنائی گئی ہے۔ مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں سے دوستی نہیں رکھتا، نہ ان کے نظام کا حمایتی بنتا ہے، بلکہ ان سے ہر سطح پر براءت اختیار کرتا ہے۔