جزا و سزا کا عقیدہ (یعنی آخرت میں بدلہ ملنے کا ایمان) انسان کی زندگی پر نہایت گہرا اور عملی اثر ڈالتا ہے۔ یہ عقیدہ صرف ایک نظریاتی سوچ نہیں، بلکہ ایک انقلابی فکر ہے جو سوچ، کردار، فیصلے، اور رویوں کو بدل دیتا ہے۔
جزا و سزا کے عقیدے کا مفہوم یہ ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ اللہ دے گا (جنت، راحت، عزت) اور ہر گناہ کا حساب لیا جائے گا (عذاب، شرمندگی، ہلاکت)
قیامت کے دن ایک کامل اور عادل عدالت قائم ہوگی پھر کوئی عمل ضائع نہیں ہوگا، چھوٹا ہو یا بڑا
نیکی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے
انسان نیک عمل کرنے میں دل سے لگ جاتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًۭا يَرَهُ
جو ذرہ برابر نیکی کرے گا، وہ اسے دیکھ لے گا۔
(الزلزال 7)
برائی سے روکنے والی قوت بنتی ہے۔ جب انسان جانتا ہے کہ ہر گناہ کا حساب ہوگا، تو وہ چھپ کر بھی گناہ کرنے سے ڈرتا ہے۔
وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّۭا يَرَهُ
اور جس نے ذرّہ برابر بُرائی کی ہوگی وہ (بھی) اسے دیکھ لے گا۔
(الزلزال 8)
انصاف اور عدل پر یقین پیدا ہوتا ہے
دنیا میں اگر ظالم بچ جائے، مظلوم مر جائے۔ تب بھی مؤمن مطمئن رہتا ہے کہ آخرت میں انصاف ہوگا۔
زندگی کا مقصد واضح ہوتا ہے
انسان سمجھتا ہے کہ یہ دنیا کھیل یا عارضی فریب نہیں، بلکہ امتحان ہے۔
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـٰكُمْ عَبَثًۭا…
کیا تم خیال کرتے ہوکہ ہم نے تمھیں بےمقصد پیدا کیا ہے۔
(المؤمنون 115)
اخلاقی تربیت ہوتی ہے
جزا و سزا کا عقیدہ انسان کو دیانت، سچائی، خدمت، ایثار کی طرف مائل کرتا ہے۔
صبر اور استقامت ملتی ہے
مصیبت، ظلم یا محرومی میں وہ صبر کرتا ہے کہ اللہ اس پر اجر دے گا۔
غرور اور خودسری کا علاج ہوتا ہے
جو اللہ کے سامنے پیش ہونے کا یقین رکھتا ہے، وہ تکبر نہیں کرتا۔
مَنۡ عَمِلَ صَـٰلِحًۭا فَلِنَفۡسِهِۦۖ وَمَنۡ أَسَآءَ فَعَلَيۡهَاۖ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّـٰمٍۢ لِّلۡعَبِيدِ
جو نیکی کرے، اپنے لیے کرے، اور جو برائی کرے، اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا، اور تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
(فصلت 46)
جزا و سزا کا عقیدہ انسان کی شخصیت کو جواب دہ، بااخلاق، خود نگر، منصف مزاج، اور نیک بناتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو دنیا میں بگاڑ سے، اور آخرت میں عذاب سے بچاتا ہے۔ یہی عقیدہ اسلام کے عدل، تقویٰ، اور ذمہ دار زندگی کی بنیاد ہے۔