یہ انسان کی بدعقیدگی، کمزوری، نافرمانی اور ناشکری کی علامت ہے۔ جب انسان کسی ایسی جگہ پھنس جائے جہاں کسی مخلوق، پیر، بزرگ یا وسیلہ کا فائدہ نہ ہو۔ جیسے سمندر کی طوفانی لہریں تو فطرتاً وہ صرف اللہ کو پکارتا ہے۔
لیکن جیسے ہی نجات ملتی ہے اور خطرہ ٹلتا ہے، وہ پھر غیراللہ کی طرف جھک جاتا ہے، فرمایا
وَإِذَا مَسَّكُمُ ٱلضُّرُّ فِى ٱلْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّآ إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّىٰكُمْ إِلَى ٱلْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ ٱلْإِنسَٰنُ كَفُورًۭا
اور جب تمہیں سمندر میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو تم جنہیں (اللہ کے سوا) پکارتے ہو وہ سب گم ہو جاتے ہیں، صرف اُسی (اللہ) کو پکارتے ہو۔ پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو تم منہ موڑ لیتے ہو، اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔
(بنی اسرائیل67)
یعنی جب اللہ نے نجات دے دی تو پھر سے شرک، غفلت، اور گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور اپنے سچے رب کو بھول جاتا ہے جس نے اُسے بچایا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کا دل جانتا ہے کہ حقیقی مددگار صرف اللہ ہے۔ لیکن وہ غیر اللہ کی محبت میں اللہ سے زیادہ شدید ہو کر اور دنیوی آسائشوں میں پڑ کر اُس سچ کو جھٹلا دیتا ہے۔
اس کے برعکس آسانی اور مشکل میں صرف اللہ کو پکارنا توحید کی دلیل ہے اور نجات کے بعد بھول جانا انسان کی شرک و کفر و ناشکری ہے۔
اللہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جسے مصیبت میں پکارا، اُسے نعمت میں بھی نہ بھولنا چاہیے۔