قرآنِ حکیم میں تکبر کو اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ صفات میں شمار کیا گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا
إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ
بیشک اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
( النحل 23)
یہ واضح کرتا ہے کہ جو لوگ خود کو دوسروں سے بڑا سمجھتے ہیں، ان کے رویے کو اللہ نہ صرف ناپسند فرماتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید بھی دی گئی ہے۔
تکبر کی پہلی اور سب سے بڑی مثال ابلیس کی ہے، جس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔
( البقرۃ 34)
یہی تکبر اس کے کفر اور راندۂ درگاہ ہونے کی بنیاد بنا۔ اسی لیے جو انسان بھی تکبر کی راہ اپناتا ہے، وہ درحقیقت شیطانی نقشِ قدم پر چلتا ہے۔
قرآن متکبرین کے انجام کے بارے میں فرماتا ہے
أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ
کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں؟
( الزمر 60)
اور مزید فرمایا کہ
إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، وہ ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔
(غافر 60)
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ تکبر صرف دنیا میں فساد اور حق کی نافرمانی کا ذریعہ نہیں بلکہ آخرت میں ذلت، رسوائی اور عذاب کا سبب بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے زمین میں تکبر کے انداز میں چلنے سے بھی منع فرمایا
وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا
زمین میں اکڑ کر مت چل، یقیناً نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتا ہے۔
( الإسراء 37)
یہ آیت انسان کو اس کی حقیقت اور عاجزی کا شعور دلاتی ہے۔ قرآن کا واضح پیغام ہے کہ تکبر ہلاکت کی راہ ہے، جب کہ عاجزی ایمان کی پہچان ہے۔