قرآنِ مجید نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا کو اہلِ ایمان اور بہترین امت کی نمایاں صفات میں شمار کیا ہے۔ یہ صفت کسی خاص گروہ یا طبقے کی نہیں بلکہ ہر اس مومن کی علامت ہے جو دین کو سنجیدگی سے اختیار کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی بھلائی) کے لیے نکالی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
(آلِ عمران 110)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ امتِ مسلمہ کی فضیلت صرف زبان سے مسلمان ہونے سے نہیں، بلکہ نیکی کی دعوت، برائی سے روکنے اور ایمان کی مضبوطی سے مشروط ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
من رأى منكم منكرًا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان.
تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے، اسے چاہیے کہ اسے ہاتھ سے روکے، اگر یہ نہ کر سکے تو زبان سے روکے، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔
(صحیح مسلم 49)
صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل یہی تھا وہ ظالم کو روکنے، بدعات کو ختم کرنے، اور لوگوں کو توحید و سنت کی طرف بلانے میں پیش پیش ہوتے۔
پس، قرآن کے مطابق تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ مومنوں کی اصل شناخت ہے، اور یہی انہیں بہترین امت بناتا ہے۔ یہ ذمہ داری ہر مسلمان پر ہے، اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق، تاکہ معاشرہ پاکیزہ اور اللہ کی رضا کے قریب ہو جائے۔