تقدیر پر ایمان اور انسان کے اختیار کا مسئلہ اسلام میں نہایت اہم، نازک اور فہم طلب ہے۔ یہ ایمان کا حصہ بھی ہے اور فکری توازن کا تقاضا بھی ہے۔
تقدیر پر ایمان کا مطلب ہے یہ کہ
یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، سب کچھ اسی کی مشیّت سے ہوتا ہے، اور جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے، وہ اس کے علم اور ارادے کے مطابق پہلے سے لکھا جا چکا ہے۔
إِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَـٰهُ بِقَدَرٍۢ
ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے (تقدیر) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
(القمر 49)
مَآ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍۢ فِى ٱلۡأَرۡضِ وَلَا فِىٓ أَنفُسِكُمۡ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۢ مِّن قَبۡلِ أَن نَّبۡرَأَهَا
زمین میں یا تمہارے نفسوں پر جو مصیبت آتی ہے، وہ کتاب (لوح محفوظ) میں پہلے سے لکھی ہوتی ہے۔
(الحدید 22)
انسان کے پاس اختیار ہے۔ یہ اسلام کا توازن ہے
اسلام یہ دونوں باتیں ایک ساتھ تسلیم کرتا ہے اللہ ہر چیز کو جانتا اور لکھ چکا ہے (تقدیر) اور انسان کو عمل کے لیے اختیار دیا گیا ہے (ارادہ و عمل کی آزادی)
وَقُلِ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّكُمۡۖ فَمَن شَآءَ فَلۡيُؤۡمِن و َمَن شَآءَ فَلۡيَكۡفُرۡ
تمہارے رب کی طرف سے حق آ چکا ہے، اب جو چاہے ایمان لائے، اور جو چاہے کفر کرے۔
(الکہف 29)
إِنَّا هَدَيْنَـٰهُ ٱلسَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًۭا وَإِمَّا كَفُورًا
ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا چاہے شکر گزار بنے یا ناشکرا۔
(الدہر 763)
تقدیر اور اختیار میں توازن کیسے سمجھیں؟
اللہ نے انسان کو ارادہ اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے
مگر وہی کرے گا جو اللہ کے علم میں ہے کیونکہ اللہ کا علم ماضی، حال، اور مستقبل سے بلند ہے۔
جیسے استاد کو علم ہو کہ کون طالب علم محنت کرے گا اور کون نہیں۔
استاد کا علم نتائج کو پیدا نہیں کرتا، صرف جانتا ہے۔
تقدیر کا غلط مطلب لینا اس لئے خطرناک ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں
اگر سب کچھ مقدر ہے، تو ہم کچھ کریں یا نہ کریں، کیا فرق پڑتا ہے؟
یہ بات اسلامی عقیدے کے خلاف ہے۔
اگر تقدیر کا مطلب یہ ہوتا کہ انسان مجبور ہے، تو پھر حساب و کتاب، جنت و دوزخ کا تصور بےمعنی ہو جاتا!
تقدیر پر ایمان ہمیں اللہ کی رضا، صبر، شکر، اور توکل سکھاتا ہے
اور اختیار ہمیں ذمہ داری، کوشش، اور خود احتسابی کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہی عقیدہ انسان کو مظلوم نہیں بلکہ باکردار اور باہمت بناتا ہے۔