تقدیر پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے؟

قرآنِ مجید نے ایمان کے جس نظام کو بیان فرمایا ہے، اس میں تقدیر پر ایمان بنیادی رکن ہے۔ ایک ایمان والا اس وقت تک مکمل مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ یہ یقین نہ رکھے کہ ہر خیر و شر، نفع و نقصان، زندگی و موت، اور رزق و صحت سب اللہ کے علم، ارادے اور فیصلے کے مطابق ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

إِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَـٰهُ بِقَدَرٍۢ
بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے (تقدیر) سے پیدا کیا ہے۔
(القمر 49)

یہ آیت بتاتی ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ اتفاق یا حادثہ نہیں، بلکہ اللہ کی حکمت اور علم کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے اہلِ ایمان کو یہ تسلی دی

مَآ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِىٓ أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۢ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَآۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌۭ
زمین میں اور تمہارے نفسوں پر جو مصیبت آتی ہے، وہ پہلے سے ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے، اور یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔
(الحدید 22)

نبی کریم ﷺ نے ایمان کے چھ ارکان بیان کرتے ہوئے فرمایا

أن تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره
ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت، اور تقدیر اس کے خیر و شر پر ایمان رکھو۔
(صحیح مسلم:حدیث نمبر 8)

یعنی، خیر ہو یا شر، کوئی خوشی یا آزمائش سب اللہ کے اذن، علم اور فیصلے سے ہوتی ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو صبر سکھاتا ہے آزمائش میں، شکر سکھاتا ہے نعمتوں پر اور دل میں سکون و توکل پیدا کرتا ہے۔

اگر تقدیر پر ایمان نہ ہو، تو انسان ہر نقصان، ہر بیماری، اور ہر ناکامی پر مایوس یا بے قرار ہو جاتا ہے، اور یہ ایمان کی کمزوری ہے۔

تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے، کیونکہ یہ اللہ کی ربوبیت، علم اور قدرت کو تسلیم کرنا ہے۔ جو بندہ تقدیر کو مانتا ہے، وہ ہر حال میں اللہ سے راضی رہتا ہے، اور یہی حقیقی توحید اور بندگی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post