بے عقل اور عقل مند انسان کی جو مثال قرآن میں بیان کی گئی ہے اس سے کونسے انسان مراد ہیں؟

قرآنِ کریم میں عقل مند اور بے عقل انسان کی مثالیں اندھیرے اور روشنی، گونگے اور بولنے والے، یا زندہ اور مردہ کے فرق سے بیان کی گئی ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ ہدایت یافتہ اور گمراہ انسان میں کتنا بڑا فرق ہے۔ مسلم اور کافر انسان میں کتنا بڑا فرق ہے۔

وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَآ أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَىْءٍۢ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَىٰهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِى هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ؟

اللہ نے دو آدمیوں کی مثال بیان کی ایک گونگا ہے، کچھ بھی قدرت نہیں رکھتا، بلکہ اپنے مالک پر بوجھ ہے، وہ جہاں بھیجے، کوئی بھلا نہ لائے۔ کیا وہ اور وہ شخص برابر ہو سکتے ہیں جو عدل کا حکم دیتا ہے اور سیدھی راہ پر ہے؟
(النحل – 76)

عقل صرف معلومات کا نام نہیں، بلکہ حق کو سمجھ کر عمل کرنے کا نام ہے۔
جو شخص نہ خیر لاتا ہے، نہ عدل کی بات کرتا ہے، نہ راہِ ہدایت پر ہوتا ہے وہ قرآن کی نظر میں زمین پر بوجھ، اور بے عقل ہے۔
اسکے بر عکس عقل مند وہی ہے جو سچ بولے، عدل کرے، اور صراطِ مستقیم پر چلے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

مشرکین مکہ کی رائج جاہلانہ اور مشرکانہ رسم کیا تھیں؟مشرکین مکہ کی رائج جاہلانہ اور مشرکانہ رسم کیا تھیں؟

مکہ کے مشرکین کی زندگی میں کئی ایسی جاہلانہ اور مشرکانہ رسمیں تھیں جو انہوں نے بغیر کسی الہامی دلیل کے اختیار کر رکھی تھیں۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات

صلوۃ کے وقت زینت اختیار کرنے سے کیا مراد ہے؟صلوۃ کے وقت زینت اختیار کرنے سے کیا مراد ہے؟

صلوۃ کے وقت زینت اختیار کرنے کا مطلب پاکیزہ لباس پہننا، خوشبو لگانا، صاف ستھرا رہنا، اور دھیان اور عاجزی کے ساتھ اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ