برائی کو بھلائی سے ٹالنے کا کیا فائدہ قرآن نے بیان کیا ہے؟

قرآنِ مجید نے برائی کو بھلائی سے ٹالنے کو نہایت عظیم صفت قرار دیا ہے۔ یہ طریقہ صرف اخلاقی بلندی نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں اعلیٰ ترین حکمت بھی ہے، جو دشمنی کو دوستی میں بدل دیتی ہے اور دلوں کی سختی کو نرمی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس روش کو شیطان کی چالوں سے بچاؤ، دلوں کی اصلاح اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَلَا تَسْتَوِى ٱلْحَسَنَةُ وَلَا ٱلسَّيِّئَةُ ۚ ٱدْفَعْ بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ فَإِذَا ٱلَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُۥ عَدَٰوَةٌۭ كَأَنَّهُۥ وَلِىٌّ حَمِيمٌۭ
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے۔ (برائی کا) دفاع ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو، تو (دیکھو گے کہ) وہ شخص جس کے ساتھ تمہاری دشمنی تھی، ایسا ہو جائے گا جیسے قریبی دوست۔
( فصلت 34)

یہ آیت سکھاتی ہے کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ بدسلوکی کرے، اور تم اس کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، تو اس کا دل نرم پڑ جاتا ہے اور دشمنی محبت میں بدل جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ عظیم صفت صرف صبر کرنے والوں اور بلند نصیب والوں کو عطا کی جاتی ہے۔

وَمَا يُلَقَّىٰهَآ إِلَّا ٱلَّذِينَ صَبَرُوا۟ ۖ وَمَا يُلَقَّىٰهَآ إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍۢ
اور یہ (اچھائی سے برائی کو ٹالنے کی صفت) صرف انہی کو عطا کی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں، اور یہ صرف بڑے نصیب والے کو عطا ہوتی ہے۔
( فصلت 4135)

یعنی برائی کا جواب برائی سے نہ دینا قوتِ نفس، ایمان کی پختگی، اور روحانی بلندی کی علامت ہے، اور یہ اللہ کا خاص انعام ہے۔

اسی موضوع پر ایک اور مقام پر فرمایا

ٱدْفَعْ بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ ۚ فَإِذَا ٱلَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُۥ عَدَٰوَةٌۭ كَأَنَّهُۥ وَلِىٌّۭ مُّبِينٌۭ
(برائی کو) اس طریقے سے ہٹاؤ جو بہترین ہو، تو دشمن دوستِ واضح بن جائے گا۔
(المؤمنون 96)

یہ تعلیم ہمیں صبر، معافی، اور حکمت کے ساتھ معاشرے کو سنوارنے کا راستہ دکھاتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے مطابق برائی کو بھلائی سے ٹالنا دلوں کو جوڑنے، دشمنی کو مٹانے، اور اللہ کی رضا پانے کا عظیم ذریعہ ہے۔ یہ عمل انسان کو شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے جنت کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ صرف عظیم ظرف والے، صابر اور اللہ پر توکل کرنے والے ہی اس راہ کو اپنانے کی توفیق پاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

قرآن میں نرم گفتاری کی مثال کس نبی کی دی گئی ہے؟قرآن میں نرم گفتاری کی مثال کس نبی کی دی گئی ہے؟

قرآن مجید میں نرم گفتاری کی روشن مثال موسیٰ علیہ السلام کی ہے، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں فرعون جیسے جابر و سرکش بادشاہ کے پاس بھیجا تو حکم دیا

کیا مرنے کے بعد سوالات کے وقت اللہ اہل ایمان کو ثابت قدم رکھتا ہے؟کیا مرنے کے بعد سوالات کے وقت اللہ اہل ایمان کو ثابت قدم رکھتا ہے؟

جی ہاں، مرنے کے بعد قبر میں اور روز قیامت میں بھی سوالات کے وقت اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ثابت قدمی عطا فرماتا ہے۔ یہ بات قرآنِ مجید میں