غزوہ بدر کے بعد جب مسلمان مشرکین کے قیدی لائے گئے تو نبی ﷺ نے ان سے فدیہ (یعنی بدلے میں مال لے کر آزاد کرنے) کا فیصلہ کیا۔ اس معاملے پر قرآن مجید میں الأنفال، آیت 67-68 میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ اپنا ارشاد نازل فرمایا
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُۥٓ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ ٱلدُّنْيَا وَٱللَّهُ يُرِيدُ ٱلْـَٔاخِرَةَ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ – لَّوْلَا كِتَـٰبٌۭ مِّنَ ٱللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَآ أَخَذْتُمْ عَذَابٌۭ عَظِيمٌۭ
کسی نبی کے لیے (یہ بات مناسب) نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ زمین میں خوب خونریزی (فیصلہ کن فتح) نہ کر لے۔ تم دنیا کا سامان چاہتے ہو، اور اللہ آخرت (کی کامیابی) چاہتا ہے، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے ایک حکم پہلے نہ ہو چکا ہوتا تو تم نے جو (فدیہ) لیا ہے، اس کے باعث تمہیں بڑا عذاب پہنچتا۔
(الانفال – 67، 68)
اللہ تعالیٰ نے فدیہ لینے پر ناراضگی کا اظہار کیا، کیونکہ اس وقت قیدیوں کو آزاد کرنے کے بجائے ان کی سرکوبی اور عبرت مقصود تھی۔ اور نبی ﷺ نے صحابہؓ کی مشاورت سے نرمی اور مالی فائدہ کو ترجیح دی، اور قیدیوں سے فدیہ لے کر آزاد کیا۔ اگر اللہ کی طرف سے سابق حکم نہ ہوتا، یعنی تقدیر اور رحمت کا فیصلہ نہ ہوتا، تو اس اقدام پر عذاب آ سکتا تھا۔ اللہ دنیاوی فائدے کے بجائے دین کی سر بلندی اور آخرت کی کامیابی کو مقدم رکھنا چاہتا ہے۔فدیہ لینے کی اجازت وقتی طور پر نرمی اور حکمت کے تحت دی گئی۔