ایمان کی تعریف قرآن کی روشنی میں کیا ہے؟

ایمان وہ سچا، پختہ یقین ہے جو بندہ اللہ، اس کے تمام نبیوں، آسمانی کتابوں، فرشتوں، قیامت کے دن اور تقدیر پر دل سے مانے، زبان سے اقرار کرے اور اپنے اعمال سے ثابت کرے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَٱلْكِتَـٰبِ ٱلَّذِى نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ وَٱلْكِتَـٰبِ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِٱللَّهِ وَمَلَـٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ وَٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَـٰلًۭا۬ۢ بَعِيدًۭا

اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر، اس کے رسول پر، اس کتاب پر جو اپنے رسول پر نازل کی، اور ان کتابوں پر جو پہلے نازل کی گئیں۔اور جو کوئی انکار کرے اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور قیامت کے دن کا وہ گمراہی میں بہت دور جا چکا۔
(النساء 136)

قرآن مجید میں ایمان کی وضاحت بہت واضح انداز میں کی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان صرف زبان سے کہنے کا نام نہیں، بلکہ دل کا یقین اور عملی اطاعت بھی ایمان کا حصہ ہے۔

ایمان دل، زبان اور عمل سے ہوتا ہے
قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوٓا۟ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَـٰنُ فِى قُلُوبِكُمْ
بدوی عرب کہنے لگے ہم ایمان لے آئے۔ کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں، کیونکہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔
(الحجرات 14)

آمَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَـٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ ۚ
رسول (ﷺ) اس پر ایمان لائے جو ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا، اور مؤمن بھی۔
سب ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر
(البقرۃ 285)

ایمان کے چند ارکان
اللہ پر ایمان کہ وہی خالق، مالک، رازق، معبود برحق ہے اسکا کوئی شریک نہیں۔

فرشتوں پر ایمان کہ وہ غیبی مخلوق جو اللہ کے حکم پر عمل کرتی ہے۔

کتابوں پر ایمان کہ قرآن، تورات، زبور، انجیل الہامی کتابیں ہیں۔ وغیرہ

رسولوں پر ایمان کہ ہر نبی پر ایمان لانا اور خصوصاً خاتم النبیین محمد ﷺ پر۔

آخرت پر ایمان کہ حساب، جنت، جہنم، حشر، میزان سے برحق ہے۔

تقدیر پر ایمان کہ اچھا یا برا جو بھی ہو، اللہ کے علم و ارادے سے ہوتا ہے
البقرہ 285، النساء 136 میں تفصیل ملاحظہ ہوں۔

طاغوت(سرکش و باغی) کے انکار کے بعد ایمان خالص قرار پاتا ہے۔
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا
تو جو طاغوت کا انکارکرےاورﷲپر ایمان رکھے تو یقیناً اس نے مضبوط سہارے کو تھام لیا جوکبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
(البقرہ-256)

ایمان کے بغیر اعمال برباد ہیں
وَمَن يَكْفُرْ بِٱلْإِيمَـٰنِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُۥ
جو ایمان کا انکار کرے، اس کا عمل ضائع ہو جاتا ہے۔
(المائدہ 5)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا ہم سے دوسروں کے اعمال کا سوال کیا جائے گا؟کیا ہم سے دوسروں کے اعمال کا سوال کیا جائے گا؟

ہر انسان سے صرف اس کے اپنے اعمال کا سوال کیا جائے گا، دوسروں کے اعمال کا نہیں۔ اس کو مختلف مقامات پر بیان فرمایا کہ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ