قرآنِ مجید نے ایمان والوں کو واضح طور پر تنبیہ کی ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست اور رازدار نہ بنائیں، کیونکہ ان کی دوستی اکثر دھوکے اور دین سے غداری کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ حکم ایمان کی حفاظت، دینی غیرت، اور امتِ مسلمہ کی عزت و استقامت کے لیے دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ
اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔
(المائدہ 51)
صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ اپنی وفاداری اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ رکھی۔ انہوں نے کفار کے ساتھ حسن سلوک ضرور کیا، مگر دلی دوستی اور دین کے معاملات میں ان پر کبھی اعتماد نہ کیا۔
دلی دوستی رفتہ رفتہ فکری غلامی میں بدل جاتی ہے۔ کافر اکثر دین اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے قریب آتے ہیں۔ ایک مسلمان کی عزت یہ ہے کہ وہ صرف اللہ اور اہل ایمان کا وفادار رہے۔ اسلام دوسروں کے ساتھ عدل و احسان سکھاتا ہے، مگر دل کا تعلق صرف اللہ کے وفاداروں سے رکھتا ہے۔
پس، قرآن کا اصول یہی ہے کہ حسن سلوک ہو، مگر دل کی دوستی اور اعتماد صرف اللہ، اس کے رسول ﷺ اور اہلِ ایمان پر ہو۔