ایمان اور عمل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کا نام ہے، اور عمل اس ایمان کا ظاہری ثبوت اور اثر ہے۔ قرآن کے مطابق سچا ایمان وہی ہے جو نیک عمل کے ساتھ ہو اگر عمل نہیں تو ایمان ناقص یا جھوٹا ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار ایمان اور عملِ صالح کو اکٹھا ذکر فرمایا
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّـٰتُ ٱلْفِرْدَوْسِ نُزُلًۭا
یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، ان کے لیے جنت الفردوس مہمان داری ہے۔
(الکہف 107)
یہی انداز تقریباً 60 سے زائد مقامات پر دہرایا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
ایمان بغیر عمل کے کیوں نامکمل ہے؟
اگر کوئی شخص زبان سے ایمان لانے کا دعویٰ کرے، لیکن اس کے عمل قرآن کے خلاف ہوں، تو یہ منافقت یا کمزوری کی علامت ہے۔
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَبِٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہیں۔
(البقرہ 8)
عمل، ایمان کا پھل ہے
جیسے درخت کا وجود تب ہی معنی رکھتا ہے جب اس سے پھل نکلے
ویسے ہی ایمان کا مطلب تب ہی مکمل ہوتا ہے جب اس سے عملِ صالح پیدا ہو۔
مَنْ عَمِلَ صَـٰلِحًۭا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌۭ فَلَنُحْيِيَنَّهُۥ حَيَوٰةًۭ طَيِّبَةًۭ
جو نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو، ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔
(النحل 97)