ایصالِ ثواب کا مطلب ہے کہ اپنے کسی نیک عمل کا ثواب کسی دوسرے کو ارسال کرنا یا بھیجنا، ہدیہ کرنا، خاص طور پر فوت شدہ شخص کے لیے۔
یہ عمل عام طور پر قرآن خوانی، صدقہ، دعا، حج، یا روزہ وغیرہ کی صورت میں کیا جاتا ہے، تاکہ مرنے والے کو اس کا فائدہ پہنچے۔
قرآنِ مجید میں براہِ راست ایصالِ ثواب کا لفظ نہیں آیا، مگر ایسا عمل کرنا ناجائز اور کفر ہے۔
قرآن کا اصولی بیان ہے کہ
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
(النجم 39)
یہ آیت اصل اصول بیان کرتی ہے انسان کو وہی ملتا ہے جو وہ خود کرے۔ یعنی عمل کوئی کرے اور ایصال کسی اور کر کر دیا جائے یہ اصول مجازات کے خلاف ہے۔ شریعت نے کسی کو اسکا مجاز نہیں بنایا۔ نہ نبی ﷺ نے ایسا کیا نہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے سو سالہ دور میں کسی صحابی نے کیا۔ خیر القرون کا زمانہ اس سے پاک تھا۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کی دعائیں کا فائدہ نہیں ہوتا۔ اسکا فائدہ اس لئے ہوتا ہے کہ دعا کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور نبی ﷺ نے اسکی ترغیب دلائی ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا
جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں، سوائے تین چیزوں کے… (ان میں سے ایک ہے) نیک اولاد کی دعا جو اس کے لیے کرے۔
(صحیح مسلم 1631)
ایصالِ ثواب کا تصور قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے۔اصل حاصل یہ ہے کہ ہر انسان کو اسکے اپنے کئے کا فائدہ اور نقصان ہوگا کسی دوسرے کا نہیں۔