ایاک نعبد و ایاک نستعین – کا عقیدہ قبروں پر بزرگوں مانگی جانے والی دعاؤں سے کیسے متاثر ہوتا ہے؟

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)
(الفاتحہ 5)

یہ قرآن مجید کی سب سے بنیادی آیت ہے جو عقیدہ توحید کا نچوڑ پیش کرتی ہے۔ اس میں بندے کا کامل اظہار ہے کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کرتا ہے اور ہر قسم کی مدد، فریاد، دعا، حاجت صرف اسی سے طلب کرتا ہے۔ اس آیت میں عبادت اور استعانت (مدد مانگنے) دونوں کو اللہ کے لیے خاص کر دیا گیا ہے۔

جب کوئی شخص قبروں پر جا کر نبی، ولی یا بزرگ سے مدد مانگتا ہے، جیسے کہ
یا عبدالقادر! مدد، یا یا رسول اللہ! میری حاجت پوری ہو
تو وہ غیر محسوس طریقے سے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے مفہوم کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ عبادت (دعاء و استغاثہ) کا حق غیر اللہ کو دے رہا ہے۔ وہ مدد اور فریاد میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کر رہا ہے۔

فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًۭا
پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔
(الجن 18)

یہ آیت صاف اعلان کرتی ہے کہ دعا (یعنی استعانت، مدد، حاجت) خالص اللہ کے لیے ہے۔ جو شخص قبر پر جا کر نبی یا ولی سے مانگتا ہے، وہ اللہ کے سوا کسی اور کو پکار رہا ہے، جو قرآن کے سراسر خلاف ہے۔

اگر دعا اور مدد مانگنے کا عقیدہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منتقل ہو جائے، تو یہ شرک کے زمرے میں آتا ہے۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ اور إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ قلبی، قولی اور عملی طور پر صرف اللہ پر توکل کرے۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا عقیدہ ہمیں سکھاتا ہے کہ عبادت صرف اللہ کی ہے۔ مدد صرف اللہ سے مانگنی ہے۔

قبروں پر جا کر دعا مانگنا، فریاد کرنا یا حاجت طلب کرنا یہ سب اس عقیدے کے منافی ہے اور شرک فی الدعاء کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

یہ آیت ہمیں دل، زبان، اور عمل سے مکمل توحید کا تقاضا سکھاتی ہے۔ بندگی صرف اسی کی، مدد بھی صرف اسی سے یہی ایمان ہے، یہی توحید ہے، یہی نجات کا راستہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا بڑے گناہوں سے بچنے پر چھوٹے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں؟کیا بڑے گناہوں سے بچنے پر چھوٹے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں؟

جی ہاں، اسلام میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اگر انسان بڑے گناہوں سے بچتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چھوٹے گناہوں کو معاف فرما

خضرؑ اور موسیٰؑ کے واقعے سے علم اور صبر کا کیا تعلق ثابت ہوتا ہے؟خضرؑ اور موسیٰؑ کے واقعے سے علم اور صبر کا کیا تعلق ثابت ہوتا ہے؟

خضرؑ اور موسیٰؑ کا واقعہ سورۂ کہف میں علم، صبر، اور اللہ کی حکمت پر بھروسے کا گہرا سبق دیتا ہے۔ قرآن نے یہ واقعہ بطور تمثیل بیان فرمایا تاکہ

کیا اللہ سختی دے تو اسے اللہ کے سوا کوئی اسے ہٹا سکتا ہے؟کیا اللہ سختی دے تو اسے اللہ کے سوا کوئی اسے ہٹا سکتا ہے؟

نہیں، جب اللہ کسی پر سختی نازل کرتا ہے تو اسے اللہ کے سوا کوئی ہٹا نہیں سکتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا