اہلِ کتاب سے جہاد کا حکم کس پس منظر میں نازل ہوا؟

قرآنِ مجید نے دینِ اسلام کے غلبے اور امت کی حفاظت کے لیے ایسے دشمنوں کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے جو نہ صرف حق کا انکار کرتے ہیں بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان میں بعض اہلِ کتاب بھی شامل ہیں، جنہوں نے دینِ حق کو چھوڑ کر ظلم، فساد اور سرکشی کو اختیار کیا۔ یہ حکم جنگی پس منظر میں نازل ہوا، جہاں دشمن نہ صرف نظریاتی بلکہ عسکری طور پر بھی اسلام کے خلاف صف آرا تھا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
قَاتِلُوا ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلَا بِٱلۡيَوۡمِ ٱلۡآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ ٱلۡحَقِّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَـٰبَ حَتَّىٰ يُعۡطُواْ ٱلۡجِزۡيَةَ عَن يَدٍۢ وَهُمۡ صَـٰغِرُونَ
ان لوگوں سے جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، نہ روزِ آخرت پر، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام مانتے ہیں، نہ دینِ حق کو قبول کرتے ہیں، ان میں سے جو اہلِ کتاب ہیں، یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دیں۔
( التوبہ 29)

اس آیت میں ان اہلِ کتاب کے خلاف جہاد کا حکم ہے جنہوں نے دینِ اسلام کے مقابلے میں سرکشی، عدوان، اور جنگی تیاری اختیار کی۔ یہ حکم صرف نظریاتی اختلاف پر نہیں، بلکہ عملی دشمنی، اور باقاعدہ ظلم و فساد کے جواب میں ہے۔ اسلام اہلِ کتاب کے ساتھ عدل، رواداری اور مکالمے کی تعلیم دیتا ہے، لیکن جب وہ دشمنی اور فساد پر اتر آئیں تو جہاد کیا جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر اس آیت پر عمل کیا، جہاں رومی نصرانی سلطنت نے اسلامی ریاست کے خلاف عسکری خطرہ پیدا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے پہلے امن کا پیغام پہنچایا، دعوت دی، پھر دفاعی تیاری فرمائی، اور ان کے خلاف صف بندی کی۔ جو اہلِ کتاب اسلام یا جزیہ قبول کرتے، ان سے صلح کی جاتی، اور جو جنگ پر آمادہ ہوتے ان سے جہاد کیا جاتا۔

یہ حکم توحید، عدل، اور اجتماعی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہے، نہ کہ ظلم یا جبر کے لیے۔ آج بھی یہ اصول اسلامی ریاست کے نظم اور عدل کے تحت ہی نافذ ہو سکتا ہے۔ قرآن کا مقصد فتنہ ختم کرنا اور اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے، نہ کہ فساد یا ذاتی انتقام۔

پس، قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ جب تک اہلِ کتاب دینِ حق کی مخالفت، فساد، یا جنگ نہ کریں، ان کے ساتھ عدل اور نرمی اختیار کی جائے، لیکن جب وہ سرکشی اور ظلم پر اتر آئیں تو اسلامی نظام کے تحت جہاد فرض ہو جاتا ہے، تاکہ زمین پر عدل قائم ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

غزوہ بدر میں فرشتوں کی مدد کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟غزوہ بدر میں فرشتوں کی مدد کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟

قرآنِ مجید نے غزوۂ بدر میں فرشتوں کی مدد کا ذکر اس لیے کیا تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو تسلی، حوصلہ اور یقین ملے کہ وہ اکیلے نہیں لڑ رہے،