اہلِ ایمان کی نصرت کے لیے اللہ کا وعدہ کیا ہے؟

قرآنِ مجید اہلِ ایمان کو نہ صرف ایمان پر ثابت قدم رہنے کا حکم دیتا ہے بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد، صبر، تقویٰ اور توکل کے ساتھ پیش قدمی پر اُن سے مدد کا وعدہ بھی کرتا ہے۔ یہ وعدہ اللہ کی سنت کا حصہ ہے، جو انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں عملی طور پر ظاہر ہوا۔ نصرتِ الٰہی کسی مخصوص قوم، جماعت یا نسل سے نہیں، بلکہ تقویٰ اور اخلاص سے وابستہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تَنصُرُوا۟ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
(محمد 7)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کی نصرت کی شرط یہ ہے کہ بندہ خود دینِ حق کا مددگار بنے۔ یعنی ایمان، عملِ صالح، دعوتِ دین، اور دین کے لیے قربانی کرنے والے ہی اس وعدۂ نصرت کے مستحق ہیں۔ یہ محض زبانی دعویٰ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے اخلاص، قربانی اور صبر درکار ہے۔ ببی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے جب دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا، تو اللہ نے انہیں بدر میں فرشتوں کی مدد، احد میں رہنمائی، اور خندق میں فتح عطا فرمائی۔ یہی وعدہ آج بھی قائم ہے، بشرطیکہ مسلمان اللہ کی رضا کے لیے دین کا جھنڈا تھامے رہیں اور دنیاوی مفادات یا تعصبات سے پاک ہو کر جدوجہد کریں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب امتِ مسلمہ نے تقویٰ، اتحاد، اور دینِ اسلام کی سربلندی کو اپنی ترجیح بنایا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فتوحات، عزت، اور غلبہ عطا فرمایا۔ لیکن جب وہ دین سے غافل ہوئے، تو ذلت و زوال ان کا مقدر بنا، جیسا کہ قرآن میں ان قوموں کے انجام سے واضح ہوتا ہے جو اللہ کے وعدے سے روگردانی کرتی ہیں۔

لہٰذا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت کا وعدہ عام نہیں بلکہ خاص ہے، جو صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو دل و جان سے دین کے سپاہی بنیں، اپنے عمل سے اللہ کی مدد کریں، اور صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہیں۔ اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہے جو خود اللہ کے دین کے مددگار بنتے ہیں یہی قرآن کا وعدہ، اور نجات کی کنجی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

انبیاء کی دعوت میں عقیدہ و عمل کا کیا باہمی تعلق ہے؟انبیاء کی دعوت میں عقیدہ و عمل کا کیا باہمی تعلق ہے؟

قرآنِ حکیم کے مطابق انبیاء کی دعوت کا مرکز عقیدہ اور عمل کا باہمی ربط ہے۔ صرف ایمان کافی نہیں جب تک وہ عمل سے ظاہر نہ ہو، اور عمل

نصرانیوں کا عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ کیا ہے؟نصرانیوں کا عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ کیا ہے؟

عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نصرانیوں کا کہنا التوبہ میں درج ہے فرمایا وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِاور نصاریٰ نے کہا مسیح (علیہ السّلام ) اللہ کے بیٹے ہیں(التوبہ30)