کفار کی طعنہ زنی یا مخالفت کے خوف سے حق بات کہنے سے رک جانا جائز نہیں۔ قرآنِ کریم میں نبی کریم ﷺ کو بھی واضح طور پر حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کے پیغام کو واضح اور بے خوف انداز میں بیان کریں، چاہے کفار مخالفت کریں یا طعنہ دیں۔
فَصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْمُشْرِكِينَ اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ الَّذِيْنَ يَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ
(الحجر 94 تا 99)
مزید ہدایات
وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُرْتَابِينَ
اور ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
(البقرہ 147)
وَٱللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِ
اور اللہ تمہیں لوگوں (کے شر) سے بچائے گا۔
(المائدہ 67)
نبوی اسوہ (مثال)
نبی ﷺ کو کفارِ مکہ نے طعنوں، الزامات اور تکلیفوں سے نہ صرف ستایا، بلکہ جان سے مارنے کی سازشیں بھی کیں، مگر آپ نے حق کو بیان کرنا بند نہیں کیا۔ ابوجہل، ابولہب، اور منافقین کی زبان درازی کے باوجود، نبی ﷺ نے دینِ حق کو چھپایا نہیں بلکہ اعلانِ عام فرمایا۔
اگر کوئی طعنوں کے خوف سے حق بات چھپاتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنے فرض سے کوتاہی کرتا ہے بلکہ باطل کو جیتنے کا موقع دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مومنوں کی مدد و نصرت کا وعدہ کرتا ہے جو اللہ کے دین کے لیے ڈٹ جاتے ہیں۔