اگر دعوت دین میں عقیدہ کو چھوڑ دیا جائے، تو اس کا انجام کیا ہو گا؟

اگر دعوتِ دین میں عقیدہ (توحید، رسالت، آخرت) کو نظرانداز کر دیا جائے، تو دین کا پورا ڈھانچہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ قرآن حکیم واضح کرتا ہے کہ عقیدہ دین کی بنیاد ہے، اور بنیاد کے بغیر کوئی بھی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ اعمال اگر عقیدے کی روشنی سے محروم ہوں، تو وہ رسمی، ناپائیدار اور بے روح بن جاتے ہیں۔ ایسا دین صرف رسوم و رواج کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے، جس میں نہ روحانی طاقت باقی رہتی ہے، نہ معاشرتی اصلاح کی قوت۔

أَفَمَنۡ أَسَّسَ بُنۡيَٰنَهُۥ عَلَىٰ تَقۡوَىٰ مِنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَٰنٍ خَيۡرٌ أَم مَّنۡ أَسَّسَ بُنۡيَٰنَهُۥ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَٱنۡهَارَ بِهِۦ فِى نَارِ جَهَنَّمَۗ

کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد تقویٰ اور اللہ کی رضا پر رکھی، یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھوکھلی، گرنے والی کھائی کے کنارے پر رکھی، جو اُسے دوزخ کی آگ میں لے ڈوبی؟
(التوبہ 109)

یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ عقیدہ کے بغیر دین کی بنیاد ریت پر کھڑی عمارت کی مانند ہے، جو وقتی طور پر باقی رہ سکتی ہے، لیکن جیسے ہی آزمائش، شبہات، یا مفادات کی آندھی آئے گی، سب کچھ گر جائے گا۔ اگر دعوت میں صرف سماجی خدمت، اخلاق یا سیاسی جدوجہد ہو، لیکن عقیدہِ توحید، رسالت، اور آخرت کا شعور نہ ہو، تو وہ محض انسانی کوششیں رہ جاتی ہیں، اللہ کی رضا کے لیے نہیں۔

دعوتِ دین میں عقیدے کو چھوڑ دینے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ دین کی شکلیں اپناتے ہیں، لیکن دل میں اللہ کا خوف اور توحید کی آگ نہیں ہوتی، اعمال رسمی اور بے روح ہو جاتے ہیں۔ امت شخصیت پرستی، بدعات، اور فرقہ واریت میں بٹ جاتی ہے۔

معاشرہ دنیا پرستی اور فکری غلامی کا شکار ہو جاتا ہے۔

لہٰذا، قرآن کے مطابق عقیدہ دعوت کا محور ہے۔ بغیر عقیدہ کے دین صرف ایک ڈھانچہ ہے، جو نہ خود قائم رہ سکتا ہے، نہ انسانیت کو سنوار سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا اللہ سختی دے تو اسے اللہ کے سوا کوئی اسے ہٹا سکتا ہے؟کیا اللہ سختی دے تو اسے اللہ کے سوا کوئی اسے ہٹا سکتا ہے؟

نہیں، جب اللہ کسی پر سختی نازل کرتا ہے تو اسے اللہ کے سوا کوئی ہٹا نہیں سکتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا

موجودہ دور میں ہماری قوم اولیاء اللہ کا کیا معیار سمجھتی ہے؟موجودہ دور میں ہماری قوم اولیاء اللہ کا کیا معیار سمجھتی ہے؟

قرآن پاک کی روشنی میں اولیاء اللہ ایمان، تقویٰ، اخلاق، اور اللہ سے قربت کی علامت ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور میں ہماری