اگر کفیل تنگدست ہو اور اس کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو، تو وہ معروف طریقے سے یتیم کے مال سے حسب ضرورت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ لیکن اس میں خیانت، فضول خرچی، یا مال ضائع کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ یتیم کے بالغ ہونے پر اس کا مال اسے واپس لوٹانا اور تمام حسابات واضح کرنا ضروری ہے۔ فرمایا
وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ ۚ وَلَا تَاْكُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ يَّكْبَرُوْا ۭ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۚ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَيْھِمْ ۭوَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِـيْبًا
اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں تو اگر تم اُن میں سمجھ بوجھ پاؤ تو اُنھیں اُن کے مال لوٹا دو اور ان کے مال فضول خرچی کرتے ہوئے اور جلدی جلدی نہ کھاؤ کہ وہ بڑے ہوجائیں گے اور (یتیم کا) جو (ولی) مال دار ہے تواُسے چاہیے کہ بچتا رہے اور جو (ولی) محتاج ہے تواُسے چاہیے کہ وہ معروف طریقہ کے مطابق کھائے پھر جب تم اُن کے مال اُن کی طرف لوٹاؤ تو اُن پرگواہ بنالیا کرو اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے۔
(النساء – 6)
یتیم کے مال سے استفادہ کرنے کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ ضروری ہے۔
ضرورت مند ہونا کفیل کے پاس اپنے اخراجات کے لیے کوئی اور وسیلہ نہ ہو۔
معروف طریقہ یتیم کے مال سے صرف اپنی بنیادی ضروریات پوری کرے اور حد سے تجاوز نہ کرے۔
نیک نیتی اس عمل کا مقصد یتیم کی کفالت کرنا ہو، نہ کہ مال میں خیانت کرنا۔
حساب کی پابندی اگر یتیم بالغ ہو جائے تو اسے تمام حسابات واضح کر کے اس کا مال لوٹانا ہوگا۔