قرآنِ مجید نے مشرکین کی روحانی ناپاکی کو ایک واضح اور مؤکد انداز میں بیان فرمایا، تاکہ اہلِ ایمان ان کے باطن کو سمجھیں اور دین کے معاملے میں ان سے احتیاط برتیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّمَا ٱلْمُشْرِكُونَ نَجَسٌۖ فَلَا يَقْرَبُوا۟ ٱلْمَسْجِدَ ٱلْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا
بیشک مشرکین ناپاک ہیں، لہٰذا وہ اس سال کے بعد مسجدِ حرام کے قریب نہ آئیں۔
(التوبہ 28)
اس آیت کا مفہوم
یہاں نجس (ناپاک) سے مراد روحانی ناپاکی ہے، نہ کہ جسمانی۔ مشرکین کی اصل ناپاکی یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔
مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) کی حرمت، طہارت اور توحید کے پیغام کے ساتھ مشرکین کا وجود غیر موزوں ہے، کیونکہ وہ کفر اور شرک کی نجاست میں لت پت ہوتے ہیں۔ فتحِ مکہ کے بعد نبی ﷺ نے مشرکین کو مسجدِ حرام سے دور کر دیا۔
صحابہ کرامؓ نے اس حکم کو عملی شکل دی اور آئندہ سال حج میں کسی مشرک کو شامل نہ ہونے دیا۔ مشرکین کی نجاست سے مراد ان کا باطنی کفر، عقیدہ کی گمراہی اور دینِ اسلام کی مخالفت ہے۔ اسی لیے اسلام نے شرک سے دور رہنے کا بار بار حکم دیا۔
یہ آیت إِنَّمَا ٱلْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ اہلِ ایمان کو خبردار کرتی ہے کہ شرک نہ صرف عقیدے کی خرابی ہے بلکہ روحانی نجاست بھی ہے، جو مقدس مقامات اور توحیدی معاشرے سے میل نہیں کھاتی۔ اس لیے توحید کے محافظین پر لازم ہے کہ وہ مشرکانہ عقائد، افعال اور اثرات سے خود کو پاک رکھیں، تاکہ اللہ کی نعمتیں ان پر قائم رہیں۔