انفال کا مطلب ہے مالِ غنیمت یعنی وہ مال، سامان یا دولت جو جنگ میں دشمنوں سے چھین کر مسلمانوں کے ہاتھ آتا ہے۔
قرآن میں الانفال کے آغاز میں فرمایا
يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَنفَالِ ۖ قُلِ ٱلْأَنفَالُ لِلَّهِ وَٱلرَّسُولِ
لوگ آپ سے مالِ غنیمت (انفال) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے انفال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔
(الأنفال 1)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انفال کا اصل حق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پر ہے، یعنی ان کی تقسیم اللہ کے نازل کردہ ضابطے کے مطابق ہوگی۔
لغوی معنی: اضافی فائدے یا اضافی مال۔
اصطلاحی معنی: جنگ میں حاصل ہونے والا مال۔
قرآنی حکم اس مال کی تقسیم اللہ کے قانون کے مطابق ہو گی، ذاتی ملکیت نہیں۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ نے کبھی انفال کو ذاتی دولت نہیں بنایا بلکہ بیت المال میں جمع کیا اور شریعت کے مطابق تقسیم کیا گیا۔