انبیاء علیہم السلام کی دعوت محض روحانی پکار یا مذہبی اصلاح نہ تھی، بلکہ ایک ہمہ گیر انقلابی پیغام تھی جو جاہلانہ، ظالمانہ اور شرک پر مبنی نظامِ فکر و معاشرت کو جڑ سے ہلا دیتی تھی۔ انبیاء نے باطل نظریات، خرافات، طبقاتی امتیاز، جھوٹے معبودوں، خود ساختہ رسم و رواج اور گمراہ کن تہذیبوں کو فکری، اخلاقی، سماجی اور سیاسی ہر سطح پر چیلنج کیا۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌۭ حَسَنَةٌۭ فِىٓ إِبْرَٰهِـۧمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُوا۟ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٰٓؤُا۟ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ ۖ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٰوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَحْدَهُ
بے شک تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں ایک بہترین نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا ہم تم سے اور ان سے جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے انکار کیا، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور نفرت ظاہر ہو چکی ہے، یہاں تک کہ تم صرف اللہ پر ایمان لاؤ۔
(الممتحنة 4)
یہ آیت اعلان کرتی ہے کہ انبیاء کا پیغام صرف دعوتِ خیر نہیں بلکہ اعلانیہ بغاوت تھی ہر اس نظام کے خلاف جو اللہ کے علاوہ کسی کی بندگی پر مبنی ہو۔ ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، لوط علیہ السلام اور نبی کریم ﷺ نے اپنی اپنی اقوام کے رائج نظریات، طاقتور اشرافیہ، اور بگڑے ہوئے کلچر کو للکارا۔ وہ صرف اللہ کی طرف بلانے نہیں آئے تھے، بلکہ جھوٹے معبودوں کے خلاف کھڑا ہونے، اور طاغوتی نظاموں کو توڑنے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ انبیاء کی دعوت صرف اصلاح کا پیغام نہیں، بلکہ وہ ایک فکری و تہذیبی انقلاب تھی۔ انبیاء نے حق کی روشنی سے باطل کے اندھیروں کو چیلنج کیا، دلوں کو آزاد کیا، اور انسانی عقل و فطرت کو بیدار کیا۔ ان کی دعوت کا مقصد صرف فرد کی نجات نہیں بلکہ ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا جو صرف اللہ کی بندگی پر استوار ہو۔