انبیاء کی دعوت میں کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ کیوں لازم و ملزوم ہیں؟

قرآنِ مجید کی روشنی میں انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا جوہر کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ پر مبنی تھا۔ اللہ پر سچا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک انسان ہر طاغوت یعنی ہر باطل معبود، جھوٹا نظام، اور ظالمانہ اختیار، ہر سرکش عنصر کا انکار نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء نے اپنی دعوت میں صرف اللہ کی بندگی کا درس نہیں دیا، بلکہ ہر اس طاقت، رسم، یا شخصیت کا انکار کیا جو اللہ کی حاکمیت کو چیلنج کرے۔ یہ دو پہلو ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں، کیونکہ اللہ پر ایمان کا مطلب ہی یہ ہے کہ بندگی صرف اسی کی ہو، اور کسی اور کے سامنے جھکنا، چاہے دل سے یا نظام کے تحت، شرک کے زمرے میں آتا ہے۔

فَمَن يَكْفُرْ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ
پھر جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، تو اس نے ایک مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
(البقرة 256)

یہ جوہری آیت انکارِ طاغوت اور ایمان باللہ کو ایک لازمی ربط میں بیان کرتی ہے۔ قرآن کسی درمیانی راہ کی اجازت نہیں دیتا یا تو بندہ اللہ کا عبد ہوگا، یا طاغوتوں کا۔ ایمان صرف اللہ کو ماننا نہیں، بلکہ غیروں کو نہ ماننا بھی ہے۔ انبیاء نے اپنے معاشروں میں موجود طاغوتوں کا کھلے لفظوں میں رد کیا، چاہے وہ فرعون کا دعوی ربوبیت ہو، قومِ نوح کے بت ہوں، یا قومِ ابراہیم کی رسوم۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِۦٓ إِنَّنِى بَرَآءٌۭ مِّمَّا تَعْبُدُونَ، إِلَّا ٱلَّذِى فَطَرَنِى فَإِنَّهُۥ سَيَهْدِينِ
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا ’میں بیزار ہوں تم سے اور ان سب سے جن کی تم عبادت کرتے ہو، سوائے اس کے جس نے مجھے پیدا کیا، وہی مجھے ہدایت دے گا۔‘
(الزخرف 26-27)

ابراہیم علیہ السلام کی دعوت ایک مثالی نمونہ ہے کہ ایمان صرف اللہ سے تعلق قائم کرنے کا نام نہیں بلکہ غیراللہ سے مکمل براءت کا بھی نام ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو ایک مومن کو باطل نظاموں، جھوٹے عقائد اور ظالم حکمرانوں سے الگ کرتی ہے۔

انبیاء کی دعوت میں کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ جو طاغوت کا انکار نہیں کرتا، وہ درحقیقت اللہ پر خالص ایمان بھی نہیں رکھتا۔ اور جو اللہ پر سچا ایمان رکھتا ہے، وہ کسی طاغوت کی اطاعت یا غلامی گوارا نہیں کرتا۔ یہی توحید کا لبِ لباب اور انبیاء کی دعوت کا مرکزی نکتہ ہے ۔ خالص بندگی صرف اللہ کے لیے، اور کھلا انکار ہر غیراللہ کے لیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا اللہ نے کسی قوم کو بطور سزا سور اور بندر بھی بنایا ہے؟کیا اللہ نے کسی قوم کو بطور سزا سور اور بندر بھی بنایا ہے؟

جی ہاں، قرآن مجید میں چند اقوام کے بارے میں ذکر ملتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے بندر اور سور بنا دیا

غزوہ تبوک کے بعد کونسے تین صحابہ کی سچی توبہ قبول ہوئی؟غزوہ تبوک کے بعد کونسے تین صحابہ کی سچی توبہ قبول ہوئی؟

قرآنِ مجید نے غزوہ تبوک کے موقع پر تین ایسے مخلص صحابہؓ کا ذکر کیا ہے جو جہاد میں بغیر کسی شرعی عذر کے پیچھے رہ گئے تھے، لیکن بعد