قرآنِ حکیم کے مطابق انبیاء کی دعوت کا مرکز عقیدہ اور عمل کا باہمی ربط ہے۔ صرف ایمان کافی نہیں جب تک وہ عمل سے ظاہر نہ ہو، اور عمل بے بنیاد ہے جب تک وہ درست عقیدے پر مبنی نہ ہو۔ انبیاء نے ہمیشہ پہلے عقیدے کی بنیاد رکھی اللہ کی توحید، آخرت پر ایمان، اور وحی کی صداقت پھر اس کے مطابق اخلاقی، سماجی اور قانونی احکامات دیے۔ ان کی دعوت ایک مکمل ضابطۂ حیات تھی، جو دل کے یقین اور عمل کی اطاعت کو لازم و ملزوم قرار دیتی ہے۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ آمَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّـٰتُ ٱلْفِرْدَوْسِ نُزُلًا
یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، ان کے لیے جنت الفردوس مہمانی کے طور پر ہے۔
(الکہف 107)
یہ آیت بتاتی ہے کہ صرف ایمان ہی نہیں بلکہ صالح عمل بھی جنت کا ذریعہ ہے۔ ایمان اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں، جنہیں انبیاء کی دعوت میں کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا گیا۔ ایمان دل میں ہو، مگر عمل میں اس کا اثر نہ ہو تو وہ دعویٰ بے معنی ہے۔
قرآن میں بار بار ٱلَّذِينَ آمَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ کی ترکیب آئی ہے، جو اس بات کا اعلان ہے کہ ایمان جب تک عمل کے ساتھ نہ ہو، اس کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ انبیاء نے عقیدے کو وہ بنیاد قرار دیا جس پر اعمال کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، اور عمل کو وہ اظہار بنایا جو ایمان کی سچائی کو ثابت کرتا ہے۔ چنانچہ انبیاء کی دعوت میں عقیدہ نہ صرف فکری تطہیر کا ذریعہ تھا، بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کے بغیر کوئی اصلاح ممکن نہ تھی۔
انبیاء کی دعوت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ نجات کے لیے صرف عقیدہ یا صرف عمل کافی نہیں، بلکہ ایمان کی سچائی عمل سے ثابت ہوتی ہے، اور اعمال کی قبولیت صحیح عقیدے پر موقوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بارہا ایمان اور عمل کو ایک ساتھ بیان کیا، تاکہ انسان اپنے دل، زبان اور ہاتھ سے اللہ کے حکم کے تابع ہو کر ایک کامل بندہ بن سکے۔