قرآن مجید کے مطابق انبیاء کی دعوت میں شرک کو سب سے بڑا اور ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا ہے۔ ہر نبی نے اپنی قوم کو سب سے پہلے شرک کے خطرات سے آگاہ کیا اور انہیں تنبیہ کی کہ اگر وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے رہے، تو نہ ان کے اعمال کا کوئی وزن ہوگا، نہ ہی ان کے لیے آخرت میں نجات ممکن ہے۔ شرک دراصل اللہ کی حاکمیت، اس کی الوہیت، اور اس کی بندگی کے حق میں صریح مداخلت ہے، جسے قرآن نے ظلمِ عظیم کہا ہے۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّـٰغُوتَ ۖ
اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ ’اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (جھوٹے معبودوں) سے بچو۔‘
(النحل 36)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کی دعوت کا پہلا اور مرکزی نکتہ یہی تھا کہ اللہ کو واحد معبود تسلیم کیا جائے اور تمام باطل معبودوں، خواہ وہ بت ہوں، انسان ہوں، یا نظام ان سب کا انکار کیا جائے۔ شرک کو صرف عبادت میں شریک کرنا ہی نہیں بلکہ حکم، محبت، خوف، اور اطاعت میں شریک کرنا بھی قرآن کی نظر میں شرک ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
بے شک جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔
(المائدہ 72)
یہ آیت بتاتی ہے کہ شرک کرنے والا شخص جنت سے محروم ہو جاتا ہے، چاہے اس کے پاس نیکیوں کا انبار ہو۔ شرک انسان کی فطرت کو بگاڑ دیتا ہے، اسے روحانی غلامی میں ڈال دیتا ہے، اور اس کی بندگی کو اللہ کے سوا دوسروں میں تقسیم کر دیتا ہے۔
انبیاء نے شرک کو ایسا زہر قرار دیا جو انسان کے عقیدے، کردار اور معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کی بندگی صرف اسی وقت خالص ہوتی ہے جب انسان ہر طاغوت سے، ہر غیراللہ سے، اور ہر جھوٹے سہارے سے اپنا تعلق کاٹ کر صرف اللہ پر بھروسا کرے۔ یہی ایمان کی اصل ہے، یہی نجات کا دروازہ ہے، اور یہی انبیاء کی دعوت کا مرکزی پیغام۔