قرآنِ مجید کے مطابق انبیاء علیہم السلام نے کفار کے باطل عقائد کو حکمت، دلیل اور واضح مثالوں کے ساتھ رد کیا۔ انہوں نے محض جذباتی یا زبانی مخالفت نہیں کی بلکہ عقلی، فطری اور وحی پر مبنی دلائل سے ان کی گمراہی کو بے نقاب کیا۔ انبیاء کی دعوت میں سب سے بڑا انکار شرک اور باطل معبودوں کا تھا، جنہیں قومیں پوجتی تھیں۔ انبیاء نے اپنے مخالفین سے سوالات کر کے، ان کے باطل معبودوں کی بے بسی کو ظاہر کر کے، اور توحید کی روشنی سے دلوں کو بیدار کر کے حق کا پیغام دیا۔
انبیاء نے اپنے قوموں کے مذہبی، سماجی اور سیاسی مفادات پر مبنی نظام کو چیلنج کیا۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑ کر واضح کیا کہ جن کو تم معبود کہتے ہو، وہ خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے جھوٹے دعوۓ ربوبیت کو معجزات اور اللہ کے حکم سے شکست دی۔ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کے فریب دہ تجارتی طریقوں پر تنقید کی، جبکہ محمد ﷺ نے قریش کی نسل پرستی، بت پرستی اور جاہلیت کو قرآن کے ذریعے چیلنج کیا۔
قَالَ أَفَرَءَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَأَنتُمْ وَءَابَآؤُكُمُ ٱلْأَقْدَمُونَ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّۭ لِّىٓ إِلَّا رَبَّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
ابراہیم علیہ السلام نے کہا کیا تم نے ان چیزوں کو دیکھا جن کی تم عبادت کرتے ہو؟ تم اور تمہارے پہلے باپ دادا؟ تو یہ سب میرے دشمن ہیں، سوائے ربّ العالمین کے۔
(الشعراء 85–87)
یہ آیات ابراہیم علیہ السلام کے اندازِ رد کو بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے نہایت جرات کے ساتھ پوری قوم کے معبودوں کو باطل اور دشمن قرار دیا، مگر ساتھ ہی اپنے رب کو ممتاز اور واحد قرار دیا۔ یہ انبیاء کا طریقہ تھا کہ وہ باطل کی بیخ کنی صرف انکار سے نہیں، بلکہ ایمان کی دعوت کے ساتھ کرتے تھے۔
انبیاء نے باطل عقائد کا رد سخت الفاظ، دلیل، منطق اور حق کی روشنی سے کیا۔ وہ باطل کی تردید صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل، حکمت، اور اللہ کے پیغام کی روشنی سے کرتے تھے۔ ان کی دعوت آج بھی باطل نظاموں اور جھوٹے عقائد کے خلاف ایک مثالی طرزِ عمل مہیا کرتی ہے جہاں ہر بات کا مرکز اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی ہے۔