انبیاء نے غلو فی الدین (حد سے بڑھنے) سے کس طرح روکا؟

قرآن مجید کے مطابق تمام انبیاء نے غلو فی الدین یعنی دین میں حد سے تجاوز کرنے سے سختی سے روکا۔ انبیاء کی تعلیمات کا بنیادی اصول اعتدال اور میانہ روی تھا۔ انہوں نے اپنی اقوام کو یہ پیغام دیا کہ دین کا مطلب اللہ کی بندگی ہے، نہ کہ پیغمبروں کو رب کا مقام دینا یا عبادت میں خود ساختہ شدتیں داخل کرنا۔ غلو دراصل دین کی روح کو مجروح کرتا ہے، اور امتوں کی گمراہی کا ایک بڑا سبب رہا ہے۔

يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ لَا تَغْلُوا۟ فِى دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْحَقَّ

اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو، اور اللہ کے بارے میں صرف حق بات کہو۔
(النساء 171)

یہ آیت عیسائیوں کو مخاطب کرتی ہے جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے معاملے میں غلو کیا۔ انہیں اللہ کا بیٹا یا معبود قرار دیا۔ یہ قرآن کی صریح تردید ہے اس رویے کی، جو دین میں حد سے بڑھنے کی شکل اختیار کرتا ہے۔

انبیاء نے غلو کو ہمیشہ شرک، بدعت، اور افراط و تفریط کا دروازہ قرار دیا۔ انہوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا، نہ کہ خود کو مقام الوہیت دینے کی اجازت دی۔ محمد ﷺ نے فرمایا

إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ
دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک کیے گئے۔
(سنن ابن ماجہ 3029)

غلو کی صورتیں مثلاً عبادات میں خود ساختہ سختیاں، اللہ کے نبیوں کو ربوبیت دینا، یا دین کے احکام میں اضافے کرنا سب قرآن و سنت کی تعلیمات سے انحراف ہیں۔

انبیاء نے ہمیں سکھایا کہ دین نہ شدت پسندی ہے نہ نرمی میں حدود سے گزرنا؛ بلکہ صراطِ مستقیم یعنی اعتدال، توازن اور سچائی کا نام ہے۔ دین میں غلو کرنے والا نہ صرف خود بھٹکتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔ قرآن کا پیغام یہی ہے جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے، اسی پر قائم رہو، نہ اس میں کمی کرو نہ زیادتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

بیویوں میں انصاف کے بارے میں قرآن کیا رہنمائی کرتا ہے؟بیویوں میں انصاف کے بارے میں قرآن کیا رہنمائی کرتا ہے؟

قرآن میں بیویوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ بہت اہمیت رکھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں واضح رہنمائی دی ہے۔ اسلام میں شوہر کی ذمہ داری ہے

جنہیں اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے کیا انکے پاس اختیارات ہیں؟جنہیں اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے کیا انکے پاس اختیارات ہیں؟

قرآنِ کریم کی تعلیمات کے مطابق، جنہیں اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے، ان کے پاس کسی قسم کے اختیارات نہیں ہوتے – نہ وہ کسی کو نفع دے سکتے

کیا قبروں پر جانا اور وہاں سے حاجت مانگنا قرآن کے مطابق جائز ہے؟کیا قبروں پر جانا اور وہاں سے حاجت مانگنا قرآن کے مطابق جائز ہے؟

قرآنِ مجید کسی قبر پر جا کر حاجت مانگنے، دعا کرنے یا وسیلہ طلب کرنے کی نہ اجازت دیتا ہے، نہ کوئی مثال دیتا ہے۔بلکہ قرآن کا پیغام یہ ہے