انبیاء کرام علیہم السلام نے عقیدۂ توحید کو صرف منطقی یا فلسفی انداز میں نہیں پیش کیا بلکہ انسانی فطرت، جذبات اور نفسیات کو سامنے رکھ کر سمجھایا۔ وہ جانتے تھے کہ انسان کا دل، خوف، محبت، امید، عظمت اور شکر جیسے جذبات سے متاثر ہوتا ہے، اس لیے انہوں نے اللہ کی وحدانیت کو انہی انسانی جذبات کے آئینے میں پیش کیا۔ انبیاء نے دلائل، مثالوں، قصوں، اور فطری مشاہدات سے توحید کی ایسی وضاحت کی جو عوام کے ذہن و دل کو چھو جائے۔
وَفِى ٱلْأَرْضِ ءَايَـٰتٌۭ لِّلْمُوقِنِينَ وَفِىٓ أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
اور زمین میں یقین رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، اور تمہارے اپنے نفسوں میں بھی۔ کیا تم دیکھتے نہیں؟
(الذاریات 20–21)
یہ آیات بتاتی ہیں کہ انبیاء نے انسان کو اس کی اپنی ذات، زمین و آسمان کے نظام، اور روزمرہ کی اشیاء سے یہ سکھایا کہ یہ سب کچھ کسی ایک قادرِ مطلق، مہربان رب کی تخلیق ہے۔ اس انداز نے انسان کے فطری رجحان کو جھنجھوڑا اور اسے اللہ کی طرف متوجہ کیا۔
انبیاء نے لوگوں سے پوچھا
تم کس سے مانگتے ہو جب مصیبت آتی ہے؟ کس سے دعا کرتے ہو؟ بارش کون برساتا ہے؟ زمین کو کون اگاتا ہے؟
یہ سوالات عوامی سطح پر سوچ کو جھنجھوڑتے اور شرک کے بے بنیاد نظریات کو باطل کر دیتے۔
ابراہیم علیہ السلام نے سورج، چاند، اور ستارے کے حوالے سے عقلی و نفسیاتی مثال دے کر قوم کو بتایا کہ جو ڈوب جائے، وہ رب نہیں ہو سکتا۔ اس طرح انبیاء نے انسان کی عقل اور جذبات دونوں کو مخاطب کر کے عقیدے کی دعوت دی۔
انبیاء کی دعوت میں عقیدے کو عوام کی نفسیات کے مطابق اس انداز سے پیش کیا گیا جو ان کے دل، جذبات، اور فہم کو متاثر کرے۔ انہوں نے توحید کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ، آسان، سادہ، اور دل نشین انداز میں پیش کیا، تاکہ دل صرف اللہ کی طرف جھک جائے اور شرک کی تمام شکلیں خود بخود غیر معقول معلوم ہوں۔